کوئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر ثناء بلوچ نے سماجی رابطے کے ویب سایٹ (ایکس) پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ملک کے سب سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں (LEAs) کی چیک پوسٹیں قائم ہیں، جن میں فرنٹیئر کور، پولیس، لیویز، ایکسائز اور کسٹمز شامل ہیں۔ ان چیک پوسٹوں کی بھرمار نے ایک غیر رسمی، غیر دستاویزی معیشت کو جنم دیا ہے، جو جبر اور غیر قانونی ٹیکس وصولی پر مبنی ہے۔تخمینہ ہے کہ ان چیک پوسٹوں پر ہر سال تقریبا 300 ارب روپے جمع کیے جاتے ہیں جو کہ بلوچستان کے سرکاری ترقیاتی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ رقم کسی رسمی نظامِ احتساب سے نہیں گزرتی بلکہ مختلف غیر مجاز حلقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔اس نظام نے مقامی آبادی پر گہرے سماجی و نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں تذلیل، خوف، اور بداعتمادی کا ماحول شامل ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے رویے اور چیک پوسٹوں کی کثرت نے عوام میں LEAs کے خلاف شدید نفرت اور ناراضگی پیدا کی ہے۔ یہ سلسلہ بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان سیاسی بداعتمادی کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔یہ تلار چیک پوسٹ کی صورتحال ہے جو گوادر اور ضلع کیچ کے مابین واقع ہے-