بدھ, جون 25, 2025
ہوماہم خبریںبلوچستان کی خبریںگوادر میں نئے ڈیم، واٹر سپلائی لائنیں اور جدید سڑکوں کی تعمیر...

گوادر میں نئے ڈیم، واٹر سپلائی لائنیں اور جدید سڑکوں کی تعمیر مکمل

کوئٹہ:ہوائی جہاز سے گوادر جایا جائے تو لینڈنگ سے پہلے زمین پر جو منظر نظر آتا ہے وہ ایک بیابان کا ہے۔ خشک پہاڑ اور ریتیلے ٹیلے۔پھر جب جہاز زمین پر اترتا ہے تو گوادر انٹرنیشنل ائر پورٹ کے نئے وسیع رن وے پر اس کی لینڈنگ اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جتنی دنیا کے کسی بھی جدید ایئرپورٹ پر۔ایئر پورٹ سے باہر نکلیں تو گوادر کی ایسٹ بے ایکسپریس وے لاہور اسلام آباد موٹروے کے معیار کی ہے جو ائر پورٹ کو براہ راست گوادر بندر گاہ سے جوڑتی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر گوادر بندر گاہ کو مکمل فعال بنانے کے لیے ایک مرکزی اقدام تھا کیونکہ اس کے ذریعے بحری اور فضائی راستوں سے بڑے صنعتی سامان اور مصنوعات کی ترسیل براہ راست منسلک ہو گئی ہے۔گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے ایئرپورٹ سے تھوڑا آگے جا کر ساحل سمندر کے کنارے آگے بڑھنا شروع ہوتی ہے جہاں ایک طرف گوادر کے وسیع سمندر کا ٹھاٹھیں مارتا شفاف پانی ہے اور دوسری طرف شہری آبادی جو اس پورٹ سٹی کی ترقی کے ثمرات سمیٹنے کے لیے تیار ہوتی نظر آتی ہے۔سڑک اور اس آبادی کے بیچ متوازی چلتا خشک مٹی کا ایک اور راستہ ہے
جس کو ٹرین کی پٹڑی بچھانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ پٹڑی ایکسپریس وے کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹ جائے گی جہاں گوادر پورٹ سے بھجوایا گیا سامان ہوائی جہازوں کے ذریعے دنیا کے دوسرے حصوں میں لے جایا جائے گا۔اس آبادی کے نزدیک ایک مقام پر سڑک کے نیچے ایک ایسی گزرگاہ بنائی گئی ہے جہاں سے سمندر کا کچھ پانی آبادی تک چلا جاتا ہے اور اس کے ذریعے گوادر کے مچھیروں کی کشتیاں مچھلی کے شکار سے واپسی پر سڑک کے نیچے سے گزرتی ہوئی سیدھی ان کے گھروں تک پہنچ جاتی ہیں اور اگلی صبح واپس سمندر میں جانے تک وہیں پارک رہتی ہیں۔سڑک چلتی چلتی بندر گاہ تک پہنچ جاتی ہے جہاں پر فائیو سٹار سہولتوں سے مزین چائنہ بزنس سینٹر بین الااقوامی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو قیام اور میٹنگز کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ چائنہ بزنس سنٹر کے ساتھ ہی بندرگاہ کی مرکزی پارکنگ ہے جہاں کنٹنیرز اور سامان سے لدے کچھ ٹرک کھڑے ہیں۔حکام کے مطابق گوادر پورٹ پر لنگرانداز ہونے والے بحری جہازوں کا سامان ان ٹرکوں کے ذریعے اندرون ملک اور افغانستان تک جاتا ہے تاہم اس بندرگاہ پر سرگرمیوں میں اضافے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں۔پاکستان کی مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور)سی پیک(جس کے تحت گوادر بندرگاہ قائم کی گئی ہے جس کا فیز ون مکمل ہو گیا ہے اور اب فیز ٹو پر کام جاری ہے
جو نہ صرف بندرگاہ پر جہازوں کی آمدورفت بڑھائے گا بلکہ یہاں پر کاروباری سرگرمیوں کو بھی فروغ دے گا۔وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور سپیشل پراجیکٹس کے زیر اہتمام کام کرنے والے سی پیک سیکریٹیریٹ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق گوادر میں سات میگا منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، دو پر کام جاری ہے جبکہ پانچ مستقبل میں مکمل کیے جائیں گے۔اب تک مکمل ہونے والے منصوبوں میں گوادر بندرگاہ، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان، پاک چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ گوادر، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، پاک چائنہ فرینڈشپ ہاسپٹل اور ڈی سیلینیشن پلانٹ شامل ہیں جبکہ مستقبل میں کوئلے سے چلنے والے تین سو میگاواٹ پاور پلانٹ، سینی ٹیشن اور لینڈ فل پراجیکٹ، ماہی گیروں کے لیے جیٹی اور سمندر کے اندر کے کچھ منصوبے شامل ہیں۔بندرگاہ کی تعمیر کے بعد اب انڈسٹریل ایریا میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور یہاں پر پاکستان کے مقامی اور غیرملکی سرمایہ کار فیکٹریاں لگانا شروع کر چکے ہیں۔حکام کے مطابق گوادر ضلع میں اس وقت مجموعی طور پر 50 کے قریب چھوٹی بڑی فیکٹریاں ہیں جن میں سے بیشتر مچھلی کے پروسیسنگ کارخانے ہیں۔ تاہم گوادر کے فری انڈسٹریل زون میں سرمایہ کار کئی نئی فیکٹریاں بھی لگا رہے ہیں جن میں سے ایک ایگون فرٹیلائزر ہے
جس کے گوادر پلانٹ سے کھاد کی پروڈکشن اور سپلائی شروع ہو چکی ہے۔ایگون فرٹیلائزر کے ڈائریکٹر مینوفیکچرنگ اعجاز احمد منہاس نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب تک ان کا گروپ کراچی میں کاروبار کرتا تھا، تاہم اب انہوں نے گوادر میں بڑھتے ہوئے کاروباری فوائد اور ٹیکس فری زون میں مختلف ٹیکسوں کی چھوٹ کی وجہ سے اپنی فیکٹری یہاں لگانے کا فیصلہ کیا۔گوادر پورٹ کی وجہ سے چیزیں باہر سے منگوانا اور وہاں برآمد کرنا بہت آسان ہے۔ ہمارا خام مال اب تک روس سے بذریعہ کراچی یہاں پہنچتا ہے لیکن ہم اگلی سہ ماہی سے اس کو براہ راست یہاں گوادر (بندرگاہ پر) منگوا رہے ہیں اور پھر یہیں سے برآمد کریں گے۔ایگون فرٹیلائزر نے ابتدا میں اپنی فیکٹری چلانے کے لیے لیکوئڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) ایران سے درآمد کی، تاہم اب وہ گوادر میں ہی کوئلے سے گیس بنانے کا پلانٹ بھی لگا رہے ہیں اور ان کا ہدف ہے کہ دو ماہ بعد وہ فیکٹری میں استعمال ہونے والی گیس خود ہی گوادر میں تیار کریں۔اعجاز احمد منہاس نے بتایا کہ ہم اگلی سہہ ماہی سے گوادر بندرگاہ سے باقاعدہ ایکسپورٹ بھی شرو ع کر رہے ہیں۔ ہم اپنی پیدوار دگنا کر کے تمام اضافی پیداوار برآمد کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ گوادر بندرگاہ سے بڑے صنعتی سامان منگوانے کی آسانی کی وجہ سے یہاں مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگلے ایک سال یہاں پر کاروباری سرگرمیاں بہت بڑھ جائیں گی۔ یہ علاقہ آنے والے وقت میں اتنی ترقی کرنے والا ہے کہ جس نے آج یہاں سرمایہ کاری نہیں کی وہ سوچے گا کہ اس نے یہاں اپنی فیکٹری کیوں نہیں لگائی۔گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمان کے مطابق شہر میں 22 سو ایکڑ کی پٹی پر قائم نارتھ فری زون میں کسی انڈسٹری پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ اور اب یہاں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے گوادر کو سپیشل اکنامک زون بھی قرار دیا جا رہا ہے۔وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد ملک کی 50 فیصد درآمد بھی جلد گوادر سے شروع ہو رہی ہے۔
انڈسٹریل زون سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر چین کی مدد سے بنائی گئی فشنگ جیٹی پر مچھیروں نے بھیڑ لگا رکھی ہے۔ جیٹی کے اندر انواع و اقسام کی مچھلیوں کی بولی لگ رہی ہے تو باہر چمکتے سورج کے نیچے گوادر کے شفاف سمندر کے کنارے کشتیوں سے آج کے شکار کو اتارا جا رہا ہے۔مچھیروں کے جھرمٹ میں ادھیڑ عمر علی اکبر ہاتھوں میں ایک رجسٹر تھامے ایک وزن کرنے والی مشین پر بیٹھے ہیں اور شکاری اپنی اپنی مچھلیاں اس مشین پر آ کر وزن کر کے ان کے حوالے کر رہے ہیں۔مچھلی لینے کے بعد اکبر علی رجسٹر میں اس کی تفصیلات درج کر لیتے ہیں۔علی اکبر دنیا بھر میں مچھلی برآمد کرنے والی کمپنی گابا کے گوادر میں نمائندے ہیں اور گذشتہ 18 سال سے یہاں سے بہترین مچھلیاں حاصل کر کے کمپنی کو بھجواتے ہیں جو انہیں برآمد کرتی ہے۔علی اکبر کہتے ہیں کہ گوادر کے سمندر سے ہر طرح کی مچھلی ملتی ہے اور یہ بندرگاہ مچھلی کے کاروبار کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔یہاں دنیا کی تقریبا تمام اقسام کی مچھلیاں بہت زیادہ نکلتی ہیں۔ یہاں بہت ساری کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں زیادہ تر انٹرنیشنل کمپنیاں ہیں۔ یہاں کی مچھلی چین، تائیوان، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور جیسے ممالک میں جاتی ہے۔گوادر کی مجموعی تعمیر و ترقی اور کاروباری سرگرمیوں میں براہ راست شامل ڈپٹی کمشنر حمود الرحمان کے مطابق یہاں سے ماہانہ دو ہزار ٹن کے قریب مچھلی برآمد کی جا سکتی ہے۔چین سالانہ 19 ارب ڈالر کی مچھلی درآمد کرتا ہے اور ہمارے لئے یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے، چین ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم انہیں اگر زیادہ نہیں تو سال میں کم از کم ایک ملین ڈالر کی مچھلی ہی برآمد کر دیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان گوادر کے مچھیروں کو چین کے برآمد کنندگان اور بحری جہازوں کے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور اس سے نہ صرف پاکستان کی مچھلی کی برآمد میں جلد بڑا اضافہ ہو گا بلکہ اس کے غیرملکی سرمایہ کار بھی پاکستان آئیں گے۔گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے سربراہ سیف اللہ کھیتران کے مطابق سی پیک فیز ٹو میں نئی جیٹیز بنانے کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے جس کے بعد مچھلی کی پیداوار مزید بڑھ جائے گی۔اگرچہ گوادر بندرگاہ اور اس سے منسلک کاروباری سرگرمیاں بتدریج بڑھ رہی ہیں لیکن یہاں شروع کیے گئے سماجی ترقی کے کئی منصوبے پہلے ہی ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔سی پیک فیز ون میں جتنے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد ایسے پراجیکٹس کی ہے جن کا فائدہ براہ راست مقامی آبادی کو ہے۔ان میں گوادر شہر کا سمارٹ ماسٹر پلان، پاک چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ، پاک چائنہ فرینڈ شپ ہاسپٹل اور ڈی سیلینیشن پلانٹ شامل ہیں۔گوادر ڈیویلیپمنٹ اتھارٹی)جی ڈی اے(کے سربراہ سیف اللہ کھیتران کے مطابق گوادر کے پرانے اور اہم مسائل پینے والے پانی کی کمی اور بارش کے پانی کے اخراج کو بھی حل کر لیا گیا ہے اور اردگرد کے علاقوں کو جوڑنے والی نئی رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے