قطر کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہفتے کے روز منعقد ہوئے جن میں دونوں جانب سے خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد کشیدگی میں کمی کے حوالے سے محتاط امید کا اظہار کیا گیا،یہ اجلاس خوشگوار ماحول میں دوحہ میں بند کمرے کے اندر رات گئے تک جاری رہا۔
دوحہ مذاکرات میں شریک فریقین کا مؤقف مذاکرات کے تسلسل کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا، ابتدا میں دونوں جانب سے مذاکرات کو ایک ہفتے کے لیے مؤخر کرنے پر غور کیا گیا، تاہم بعد ازاں اتوار کو دوبارہ اجلاس بلانے پر اتفاق کیا گیا۔
تاہم بعد ازاں باخبر ذرائع نے بتایا کہ انتہائی رازداری میں ہونے والے یہ مذاکرات رات گئے تک جاری رہے اور امکان ہے کہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
اجلاس کا آغاز ایک سینئر قطری انٹیلی جنس اہلکار نے کیا جس کے بعد پاکستانی اور افغان وفود نے زیر التوا امور پر براہ راست بات چیت شروع کی۔
پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کی، جبکہ ان کے ہمراہ قومی سلامتی کے مشیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک تھے، افغان وفد کی نمائندگی قائم مقام وزیرِ دفاع ملا یعقوب مجاہد اور انٹیلی جنس کے سربراہ مولوی عبد الحق وثیق نے کی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغان سرزمین پر موجودگی ناقابلِ قبول ہے اور اس گروہ کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کا مطالبہ کیا۔
طالبان وفد نے تعاون کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی تصدیق شدہ تفصیلات فراہم کرنے کا کہا اور وعدہ کیا کہ ان خدشات کو پاکستان کی تسلی کے مطابق حل کیا جائے گا۔
تاہم طالبان نمائندوں نے یہ بھی کہا کہ کابل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ٹی ٹی پی کی کارروائیاں مکمل طور پر روک دے، غیر حقیقت پسندانہ ہے۔
افغان مذاکرات کاروں نے مزید شکایت کی کہ پاکستان کے عوامی بیانیے نے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے، اور یہ الزام بھی لگایا کہ افغانستان میں گرفتار دولتِ اسلامیہ خراسان (آئی ایس کے) کے جنگجوؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پاکستان میں تربیت دی گئی۔
ذرائع کے مطابق طالبان مذاکرات کار دورانِ اجلاس وقفے وقفے سے افغانستان میں اپنی قیادت سے مشاورت کرتے رہے۔
دن کے اوائل میں جاری ایک بیان میں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا کہ اعلیٰ سطح کا وفد افغان طالبان حکام پر زور دے گا کہ وہ عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور پاکستان کے جائز سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کریں، جن میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندستان (بلوچستان لبریشن آرمی) شامل ہیں۔
گزشتہ دو برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی برقرار ہے، اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ کابل سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہا ہے، صورتحال 9 اکتوبر کو اس وقت شدید ہو گئی جب پاکستان نے افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے اور اطلاعات کے مطابق لڑاکا طیارے کابل کی فضا میں داخل ہوئے جن کے بعد دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔
اس کے بعد طالبان نے 11 اکتوبر کو پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے جن میں کم از کم 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، سیکیورٹی حکام کے مطابق پاکستانی جوابی کارروائی میں تقریباً 200 طالبان جنگجو مارے گئے۔
بعد ازاں دونوں ممالک نے 48 گھنٹے کی جنگ بندی اور اس دوران مذاکرات پر اتفاق کیا، جسے بعد میں بڑھا دیا گیا۔
جمعہ کی رات ہونے والی تازہ سرحدی جھڑپ، جس میں پاکستانی فورسز نے سرحد پار حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، دوحہ مذاکرات کو متاثر کرنے کا خدشہ پیدا کر گئی تھی، تاہم دونوں فریقوں نے طے شدہ منصوبے کے مطابق بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
افغان حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستان نے جمعے کو جنگ بندی میں توسیع کے چند گھنٹے بعد ہی افغانستان میں فضائی حملے کیے، جن میں مبینہ طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، افغانستان نے ان حملوں کے نتیجے میں 3 مقامی کرکٹرز کی ہلاکت کے بعد آئندہ ماہ پاکستان میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ٹرائی سیریز سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے ہفتے کو کہا کہ پاکستان نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں ’خوارج سے منسلک‘ گل بہادر گروپ کے تصدیق شدہ کیمپوں کو نشانہ بنایا۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ 48 گھنٹے کی جنگ بندی کے دوران افغانستان سے سرگرم اس گروہ کے دہشت گردوں نے پاکستان میں متعدد حملوں کی کوشش کی، جنہیں سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنایا، ان کے مطابق عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنا ہے۔
بعد ازاں وزیر نے ایک اور پوسٹ میں کہا کہ پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے اس ’جانبدار، قبل از وقت اور متنازع تبصرے‘ کو مسترد کیا ہے جس میں بغیر کسی آزاد تصدیق کے 3 ’افغان کرکٹرز‘ کی ’فضائی حملے‘ میں ہلاکت کا ذکر کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اس مؤقف کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور آئی سی سی کے دعوے کو چیلنج کرتا ہے، ساتھ ہی فوری تصحیح کا مطالبہ کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ سیاست کو کھیل، خصوصاً کرکٹ، میں شامل نہیں ہونا چاہیے، پاکستان آئی سی سی پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور کھیل کی روح کو برقرار رکھے‘۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’پاکستان کو توقع ہے کہ آئی سی سی، جس کی موجودہ قیادت (جے شاہ) بھارت سے تعلق رکھتی ہے، اپنی غیر جانب داری، بین الاقوامی معیار کے منصفانہ کھیل اور غیر جانبدار رویے کو بحال کرے گی‘۔
جاری مذاکرات کے دوران ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے وزیراعظم شہباز شریف اور افغان وزیراعظم محمد حسن اخوند سے فون پر علیحدہ علیحدہ بات کی اور دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں ثالثی کی پیشکش کی۔