بدھ, اکتوبر 8, 2025
ہوماہم خبریںبین الاقوامی خبریںحماس کی قیادت غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شقوں...

حماس کی قیادت غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شقوں میں ترمیم کی خواہاں

فرانسیسی خبر رساں ادارے نے فلسطینی ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے حکام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے سے متعلق شقوں میں ترمیم چاہتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حماس کے مذاکرات کاروں نے منگل کو دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے کہا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور مزید بتایا کہ تنظیم کو جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی حمایت سے سامنے آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں جنگ بندی، حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی 72 گھنٹوں کے اندر رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا تجویز کیا گیا ہے۔

تاہم فلسطینی ذریعے نے کہا کہ ’حماس غیر مسلح ہونے اور مزاحمتی دھڑوں کے کارکنان کی بے دخلی جیسی کچھ شقوں میں ترمیم چاہتی ہے‘۔

ذریعے کے مطابق حماس کے رہنما غزہ پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلا کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں اور اس بات کی یقین دہانی بھی چاہتے ہیں کہ علاقے کے اندر یا باہر کسی قسم کی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوگی۔

گزشتہ ماہ دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر غور کے لیے منعقد ہونے والے حماس کے اجلاس پر ایک اسرائیلی حملے میں 6 افراد شہید ہوگئے تھے۔

ذرائع کے مطابق حماس دیگر علاقائی اور عرب فریقوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، تاہم تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

مذاکرات سے واقف ایک اور ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کے اندر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اب تک حماس میں دو آرا ہیں، پہلی رائے غیر مشروط منظوری کی ہے کیونکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی ضمانت کے ساتھ جنگ بندی ہو، بشرطیکہ ثالث یہ یقین دہانی کرائیں کہ اسرائیل منصوبے پر عمل کرے گا‘، لیکن دیگر کو ’اہم شقوں پر سخت تحفظات‘ ہیں۔

ذرائع کے مطابق ’وہ غیر مسلح ہونے اور کسی بھی فلسطینی شہری کو غزہ سے نکالنے کو مسترد کرتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک مشروط معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جس میں ایسی وضاحتیں شامل ہوں جو حماس اور مزاحمتی دھڑوں کے مطالبات کو مدنظر رکھیں تاکہ غزہ کی پٹی پر قبضے کو قانونی جواز نہ ملے اور مزاحمت کو جرم نہ بنایا جائے۔

ذرائع کے مطابق ’کچھ دھڑے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں لیکن بات چیت جاری ہے اور جلد صورتحال مزید واضح ہو جائے گی‘۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

منصوبے کے تحت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے درجنوں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے گا، اسرائیلی فوج بتدریج واپس بلائی جائے گی اور غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی قائم کی جائے گی۔

منصوبے میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے راستے کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔

اسرائیلی فوج اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، مسلسل بمباری نے اس علاقے کو ناقابلِ رہائش بنا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں قحط اور بیماریوں نے جنم لیا ہے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے