پیر, دسمبر 29, 2025
ہوماہم خبریںبین الاقوامی خبریںامریکا کے بعد چین ایئرکرافٹ کیریئر سے جدید لڑاکا طیارے لانچ کرنے...

امریکا کے بعد چین ایئرکرافٹ کیریئر سے جدید لڑاکا طیارے لانچ کرنے والا دوسرا ملک بن گیا

چین کا نیا اور سب سے جدید ایئرکرافٹ کیریئر اپنے نئے الیکٹرومیگنٹ کیٹاپلٹ کے ذریعے 3 مختلف قسم کے طیارے کامیابی کے ساتھ لانچ کر چکا ہے۔

چین کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ کامیابی پہلی بار عوام کے سامنے جاری کی گئی فوٹیج میں دکھائی گئی، جسے ایک بڑی تکنیکی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔

سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کی جاری کردہ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ چین کا ففتھ جنریشن کا جے-35 اسٹیلتھ فائٹر، 4.5 جنریشن کا جے-15 ٹی فائٹر اور کے جے-600 ارلی وارننگ و کنٹرول طیارہ فُوجیان ایئرکرافٹ کیریئر سے ای ایم اے ایل ایس نظام کے ذریعے اُڑان بھرتے ہیں۔

سرکاری میڈیا نے ان تجربات کو چین کی ایئرکرافٹ کیریئر ٹیکنالوجی میں ایک اور ’بریک تھرو‘ اور بحری صلاحیتوں میں تبدیلی کا ایک ’سنگِ میل‘ قرار دیا ہے۔

دنیا میں صرف ایک اور ایئرکرافٹ کیریئر اس نظام کا حامل ہے، جو امریکی بحریہ کا نیا کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ (USS Gerald R. Ford) ہے، جسے بہار 2022 میں فلائٹ ڈیک آپریشنز کے لیے تصدیق ملی تھی۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے، جب امریکی کانگریس کا ایک وفد بیجنگ میں موجود ہے تاکہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مذاکرات کیے جا سکیں، جن میں عسکری سطح پر رابطے بھی شامل ہیں، یہ 6 برس بعد پہلا موقع ہے کہ ایسا کوئی وفد چین پہنچا ہے۔

سابق امریکی نیوی کپتان اور تجزیہ کار کارل شوسٹر کے مطابق فُوجیان پر کامیاب تجربات، جن میں کیٹاپلٹ لانچ اور رُکنے والی لینڈنگ دونوں شامل ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ بحری جہاز آئندہ چند ہفتوں میں باضابطہ طور پر پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این ) کے بیڑے میں شامل ہو سکتا ہے۔

آئندہ چند مہینوں میں مزید سرٹیفکیشن متوقع ہیں، جب کہ اگلے سال بہار تک اس کے فضائیہ اور راکٹ فورس کے ساتھ انضمام کے آخری تجربات کیے جانے کا امکان ہے۔

ای ایم اے ایل ایس نظام طیاروں کو زیادہ وزنی ہتھیاروں اور ایندھن کے ساتھ اُڑان بھرنے کی اجازت دیتا ہے، جو چین کے پچھلے دو ایئرکرافٹ کیریئرز شینڈونگ اور لیاؤننگ میں ممکن نہیں تھا، کیوں کہ ان پر ’اسکی جمپ‘ طرز کے ریمپس نصب ہیں، اس کے نتیجے میں فُوجیان کے طیارے زیادہ فاصلے سے ہدف پر حملہ کر سکیں گے۔

ماہرین کے مطابق فُوجیان کی صلاحیت بڑے جنگی طیارے بھاری اسلحے کے ساتھ زیادہ فاصلے پر بھیجنے کی ہے، جس سے اس کا جنگی دائرہ عمل وسیع ہو جائے گا اور چین کو سمندر پار (بلو واٹر) صلاحیت حاصل ہوگی۔

اگرچہ ای ایم اے ایل ایس سسٹم کی بدولت فُوجیان ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کے برابر ہے، لیکن یہ نیوکلیئر انرجی سے نہیں بلکہ روایتی ایندھن سے چلتا ہے، اس کے برعکس امریکی بحری بیڑہ مکمل طور پر ایٹمی توانائی سے چلتا ہے اور لمبے عرصے تک سمندر میں رہ سکتا ہے، جب کہ فُوجیان کو وقتاً فوقتاً بندرگاہ یا ٹینکر سے ایندھن لینا پڑے گا۔

چین کے بحری طاقت میں اضافے کے ساتھ وہ تائیوان اسٹریٹ سے لے کر مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین تک کے پانیوں میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر رہا ہے، جس پر امریکا، جاپان اور فلپائن جیسے ممالک تنقید کرتے ہیں۔

منگل کو چین میں موجود وفد کے سربراہ ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے سینیئر ڈیموکریٹ امریکی نمائندہ ایڈم اسمتھ نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان ناکافی عسکری تعلقات ’خاص تشویش‘ کا باعث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی فوج اور سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی ایٹمی طاقت ہے، امریکا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج اور سب سے بڑا ایٹمی ذخیرہ ہے، ہمارے لیے یہ خطرناک ہے کہ ہم باقاعدہ طور پر ایک دوسرے سے رابطے نہ کریں تاکہ غلط فہمیوں اور غلط حساب کتاب سے بڑے مسائل نہ پیدا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی اور چینی جہازوں اور طیاروں کے درمیان خطرناک حد تک قریب آنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں، اور اس بارے میں بہتر مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ اسمتھ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور چین کو ایٹمی ہتھیاروں پر بھی مکالمہ بڑھانا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت، ڈرونز، سائبر اور خلائی صلاحیتوں کی تیز رفتار ترقی نے بھی غلط فہمی کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔

یہ وفد اتوار کو بیجنگ پہنچا تھا، اور چینی وزیراعظم لی چیانگ، وزیر دفاع ڈونگ جون اور نائب وزیراعظم ہی لی فینگ سے ملاقاتیں کیں، جو چین کی جانب سے تجارتی مذاکرات کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔

پیر کو ملاقات کے دوران اسمتھ نے ڈونگ کو بتایا کہ امریکا چین کے ساتھ خاص طور پر عسکری معاملات میں رابطے بڑھانا چاہتا ہے۔

چینی میڈیا کے مطابق ڈونگ نے امریکی قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ رکاوٹ ڈالنے اور محدود کرنے والے عوامل کو ختم کریں اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

یہ دورہ جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد ہوا ہے، یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان آئندہ ممکنہ سربراہی ملاقات سے قبل اعلیٰ سطح کے رابطوں کی تازہ ترین کڑی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے ماہ جنوبی کوریا میں ہونے والے اے پی ای سی اجلاس میں شی سے ملاقات کریں گے اور اگلے سال کے اوائل میں چین کا دورہ بھی کریں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شی مناسب وقت پر امریکا کا دورہ کریں گے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے