اتوار, اکتوبر 19, 2025
ہوماہم خبریںافغانستان نے دہشتگردوں کی حوالگی کے لیے پاکستان سے 10 ارب روپے...

افغانستان نے دہشتگردوں کی حوالگی کے لیے پاکستان سے 10 ارب روپے مانگے؟ دفتر خارجہ کی وضاحت آگئی

دفتر خارجہ کا کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ دہشت گردی کے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلسل مکالمے اور تعاون پر یقین رکھتا ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ سفارتی ذرائع کو ترجیح دی ہے، چاہے اسے افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور حملوں کے خطرات کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران افغانستان میں مبینہ پاکستانی فضائی کارروائیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف سرحدی علاقوں میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہدفی کارروائیاں کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ’یہ آپریشنز صرف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کیے جاتے ہیں، بالخصوص ان گروہوں کے جن سے پاکستان کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے، جیسے ”فتنہ الخوارج“ اور ٹی ٹی پی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کارروائیاں ’مستند اور قابلِ تصدیق انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انتہائی احتیاط اور درستگی کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں۔‘

ترجمان نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی علاقوں میں کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث ہے، اور کہا کہ پاکستان کا واحد مقصد اپنے عوام کو سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے، تاہم اس کے اقدامات ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اصولوں کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، جن کا مقابلہ اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان افغانستان کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور تعمیری روابط پر پختہ یقین رکھتا ہے۔

ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ ’دونوں ممالک کا مفاد دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کے قیام میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کو مکمل طور پر بحال کرے، اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔‘

ترجمان نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے کسی تیسرے ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس کا خودمختار معاملہ ہیں۔ ’ہم اس پر کوئی مخصوص تبصرہ نہیں کرتے، تاہم ہماری مستقل درخواست یہی رہی ہے کہ افغانستان اپنی خارجہ پالیسی میں آزادی رکھتا ہے، لیکن اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کا معاملہ کابل حکام کے ساتھ پاکستان کی تمام سطحوں پر بات چیت کا مستقل حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیرِاعظم سے لے کر اعلیٰ حکومتی حکام تک، سب نے اس مسئلے کی سنگینی افغان حکام کے سامنے واضح انداز میں رکھی ہے۔‘

بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے استفسار کیا کہ وزیرِ دفاع نے قومی اسمبلی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی حوالگی کے لیے 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا، اس بارے میں دفترِ خارجہ کا کیا مؤقف ہے؟

اس پر ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ وزیرِ دفاع نے یہ بات اس انداز میں کہی۔ دراصل انہوں نے کہا تھا کہ افغان فریق نے دہشت گردوں کو منتقل کرنے کے لیے 10 ارب روپے مانگے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ نئی جگہ پر منتقل ہونے کے بعد یہ دہشت گرد پاکستان پر حملے نہیں کریں گے؟ تاہم افغان فریق اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دے سکا۔ یہی بات وزیرِ دفاع نے بیان کی تھی۔‘

ترجمان نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے سنجیدہ ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعاون اور بات چیت کے ذریعے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ کیا جائے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے