جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہوماہم خبریںقطر پر اسرائیلی جارحیت، امریکی یقین دہانیوں کے باوجود کیا خلیجی ممالک...

قطر پر اسرائیلی جارحیت، امریکی یقین دہانیوں کے باوجود کیا خلیجی ممالک محفوظ ہیں؟

مکمل آزادی و استثنیٰ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ میں نسل کشی اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کا نسلی استحصال کرنے والی نسل پرست ریاست اسرائیل نے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی کہ جب اس کے جنگی طیاروں نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہوئے دوحہ میں رہائشی علاقے پر بمباری کی جو امریکا کی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے والی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔

اپنے کام میں بہترین اور افسانوی سمجھی جانے والی اسرائیلی انٹیلی جنس اس بار ایک بھی رہنما کو تلاش کرنے میں ناکام رہی جوکہ گھر کو متعدد میزائلوں سے نشانہ بناتے ہوئے ان کا مقصد تھا۔ اس حملے میں 5 افراد جاں بحق ہوئے۔

یہ ناکامی اسرائیل کی سیکیورٹی سروسز میں موضوعِ بحث بنے گی۔ جو بھی ہو، یہ ایک بڑا دھچکا تھا، ایک شرمناک ناکامی تھی۔ لیکن ہاں، میزائلوں نے امن کی کوششوں کو ضرور تباہ کیا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی سرزنش کی اور اس بار امریکا نے اقوامِ متحدہ کے فیصلے کو ویٹو بھی نہیں کیا جیسا کہ میری یادداشت کے مطابق وہ صہیونی ریاست کے ہر مجرمانہ طرزِ عمل کے دفاع میں کرتا آیا ہے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی جہاں ویٹو کا اختیار لاگو نہیں ہوتا جس میں دو ریاستی حل کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے حق میں 142، مخالفت میں 10 (بشمول امریکا) جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

ووٹنگ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً تمام ممالک ہی اس خیال کے حق میں ہیں لیکن یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ یہ قرارداد علامتی کوشش سے بڑھ کر کسی حقیقی تبدیلی کا باعث بنے گی کیونکہ نام نہاد دو ریاستی حل کا حصہ، مکمل فعال اور خودمختار فلسطینی ریاست کا تصور بہت دور نظر آتا ہے۔

اقوامِ عالم کے مذمتی بیانات کے باوجود بھی نسل پرست ریاست کو کوئی پچھتاوا نہیں اور اس نے حماس کو نشانہ بنانے کے لیے قطر پر اپنی کارروائی دہرانے کی دھمکی دی ہے۔ اگرچہ امریکی صدر نے قطری امیر کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے ملک پر اس طرح کا حملہ ’دوبارہ نہیں ہوگا‘۔

قطر خطے کے سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے جو خلیج میں امریکی سینٹ کام کے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ عرب دنیا اکثر واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کو اپنی سلامتی کی ضمانتوں کے طور پر دیکھتی ہے جو انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن اب گمان ہوتا ہے کہ اس کا مقصد صرف ایران کے خطرات سے بچانا تھا، اسرائیل سے نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر اس حملے کے اہداف پورے ہو جاتے تو امریکا قطر پر اسرائیلی فضائی حملے کی توثیق کرنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور آخر میں اس نے بوجھل دل کے ساتھ غیرواضح ردعمل دیا جس سے لگا کہ امریکا اسرائیل کی ناکامی پر زیادہ شرمندہ تھا کہ وہ حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیا (حملے میں ان کے بیٹے شہید ہوئے) اور خالد مشعل جیسے رہنماؤں کو قتل کرنے میں ناکام رہا۔

یہ وائٹ ہاؤس کے لیے زیادہ شرمناک تھا کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیجی رہنماؤں کے ساتھ ذاتی و کاروباری تعلقات ہیں جبکہ چند ہفتوں پہلے انہوں نے خطے کا دورہ کیا تھا جس دوران قطر نے انہیں 40 کروڑ امریکی ڈالر کا شاہانہ وی وی آئی پی جمبو طیارہ تحفے میں دیا تھا۔ یہ طیارہ کافی عرصے سے امریکی صدور کے زیرِ استعمال رہنے والے ایئر فورس ون کے متبادل کے طور پر دیا گیا جس کا اربوں ڈالر کا امریکی متبادل پیش کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔

خلیجی عرب ممالک کے رہنماؤں جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی ہیں اور اس سے مختلف مفادات بھی وابستہ ہیں جیسے بحرین اور متحدہ عرب امارات جبکہ وہ سعودی عرب اور قطر سے بھی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں، ان کے لیے قطر پر اسرائیلی حملہ چونکا دینے والا ہوگا جو ان کے لیے نئے حقائق کو سامنے لایا ہوگا۔

اگرچہ قطر کئی برس سے اسرائیل سے رابطے میں ہے اور اس نے تل ابیب حکومت کے ذریعے حماس انتطامیہ کی حمایت کے لیے رقم بھی بھیجی لیکن پھر بھی اسرائیل نے قطر کی سلامتی کی پامالی کی۔

سعودی عرب نے ابراہم معاہدے کی جانب کسی بھی اقدام کو دو ریاستی حل سے مشروط کیا ہے اور وہ اسرائیل سے نسبتاً دور رہا ہے لیکن اب ریاض نے بھی خلیج تعاون تنظیم کے اپنے ساتھی ملک پر اسرائیل کے حملے کو خطرے کے دور پر دیکھا ہے۔

قطر پر اسرائیلی حملے نے ظاہر کیا کہ ایک امیر خلیجی ملک کی سلامتی بھی کتنی کمزور ہو سکتی ہے۔ قطر میں امریکی فوجی اڈے جدید فضائی دفاع اور میزائل سسٹم سے لیس ہیں، اس کے باوجود یہ حملہ ہوا۔ چھوٹی لیکن دولت مند خلیجی عرب امارات کو ملنے والی امریکی دفاعی ڈھال یا چھتری اسرائیلی فضائیہ سے ان کے آسمانوں کی حفاظت نہیں کر سکتی بلکہ وہ تو اسرائیلی حملوں کو نہ روکنے کا انتخاب کرے گی۔

عرب دنیا کا غصہ بجا ہے۔ لیکن زیادہ تر عرب خیلجی ریاستیں بھی اخوان المسلمون اور حماس جیسے اسلام پرست گروہوں سے نفرت میں اسرائیل کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کی تحریکیں ان کے معاشروں پر اثرانداز ہو سکتی ہیں اور ان کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

اسرائیل اور امریکا، عرب ممالک کی اس سوچ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسلامسٹ (حتیٰ کہ سیکیولر) مزاحمتی تحریکوں اور خلیجی حکمرانوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ عرب ممالک کی سڑکوں پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف غم وغصے کے باوجود امریکا کی اسرائیلی کارروائیوں کی مسلسل حمایت کو بھلا آپ اور کس طرح بیان کریں گے؟

ذرا تصور کریں کہ اگر اسرائیل کو مجرمانہ طرز عمل میں تبدیلی لانے اور فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے مشترکہ عرب دباؤ کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں تو بزنس فرینڈلی قدامت پسند ٹرمپ کا کیا بنے گا۔ تیل کے اسٹریٹجک ذخائر کے باوجود، مثال کے طور پر آپ کے خیال میں امریکی اسٹاکس کی قیمتیں تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے آخر کب تک محفوظ رہیں گی؟

ہاں میں متفق ہوں۔ یہ فرضی منظرنامہ فرضی ہی رہے گا کیونکہ عرب ممالک بالخصوص خلیج میں تیل اور گیس سے مالا مال ریاستوں کو یہ باور کروایا جائے گا کہ قطر میں جسے نشانہ بنایا گیا وہ قطر کی خودمختاری نہیں بلکہ ان کا مشترکہ دشمن تھا۔ عرب دنیا خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دے گی اور بیان بازی کا لہجہ نرم پڑنے لگے گا۔

یہاں تک کہ قطر بھی کافی پُر سکون نظر آیا کیونکہ اس کے وزیر اعظم نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اور ان کے اعلیٰ معاونین کے ہمراہ عشائیہ کیا جہاں اطلاعات کے مطابق امریکا نے اس بات پر زور دیا کہ قطری ریاست کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کتنے اہم ہیں۔ اس کا ثبوت واشنگٹن میں قطری سفارت کاروں میں سے ایک کی جانب سے پُرجوش ٹویٹ تھا جس میں انہوں نے کہا، ’امریکی صدر کے ساتھ زبردست ڈنر۔ ابھی ختم ہوا‘۔

اگر کسی کو اس بارے میں شک تھا تو عرب ممالک کی بھیانک حقیقت اب مزید واضح ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی واضح ہوچکا کہ امریکا، اسرائیل کے علاوہ تمام مخالفین اور جارحین کے خلاف انہیں تحفظ فراہم کرے گا۔

انہیں اب اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چند بنیادی سفارتی بیانات کو چھوڑ کر وہ غزہ میں جاری نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔

ایک سوال جس پر انہیں غور کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا ان کی طویل مدتی نجات اور خودمختاری چین کی قیادت میں ابھرتے گلوبل ساؤتھ کے ذریعے ممکن ہے؟ اس سلسلے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی میں طے پانے والا امن معاہدہ اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے