جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہوماہم خبریںبین الاقوامی خبریںٹرمپ نے 4 بار فون کیے، مودی نے کالز وصول کرنے سے...

ٹرمپ نے 4 بار فون کیے، مودی نے کالز وصول کرنے سے انکار کر دیا، جرمن اخبار کا دعویٰ

جرمن اخبار فرانکفرٹر الگمائنے سائٹونگ (ایف اے زیڈ) نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے فون پر 4 بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن مودی نے کال وصول کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ رویہ مودی کے ’غصے اور احتیاط‘ کی شدت کا عکاس ہے، جو روسی تیل کی درآمد روکنے کے لیے بھارت پر امریکی ٹیرف کے دباؤ کے جواب میں سامنے آیا ہے۔

ان مبینہ کالز کے پس منظر میں تجارتی کشیدگی میں بڑی شدت شامل ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے، جسے روسی تیل کی درآمدات پر سزا کے طور پر بیان کیا گیا تھا، یہ شرح برازیل کے بعد کسی بھی ملک پر عائد کی جانے والی سب سے زیادہ سطح ہے۔

اسی دوران نئی دہلی نے روسی رعایتی تیل کی خریداری میں اضافہ کر دیا جس سے واشنگٹن کی ناراضی اور بڑھ گئی۔

ایف اے زیڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کا بار بار فون کالز سے گریز کسی وقتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا، تاکہ وہ ٹرمپ کے مخصوص اندازِ گفت و شنید میں نہ پھنس جائیں، ٹرمپ اکثر کسی معاہدے کو باضابطہ طے ہونے سے پہلے ہی عوامی طور پر اعلان کر دیتے ہیں۔

جرمن اخبار کے مطابق ویتنام کے ساتھ ٹرمپ کے نام نہاد تجارتی معاہدے کی مثال ایک انتباہی واقعے کے طور پر دی جاتی ہے، جہاں ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کیا، حالانکہ کوئی معاہدہ موجود ہی نہیں تھا، مودی اسی جال میں نہیں پھنسنا چاہتے۔

نیویارک کی دی نیو اسکول میں انڈیا۔چائنا انسٹی ٹیوٹ کے شریک ڈائریکٹر و امریکی سیاسی تجزیہ کار مارک فریزر کا خیال ہے کہ امریکا کی انڈو پیسیفک حکمتِ عملی، جس کے تحت بھارت کو چین کے خلاف امریکی کوششوں میں شریک ہونا تھا، ناکام ہو رہی ہے۔

مارک فریزر نے کہا کہ بھارت نے کبھی بھی یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ وہ چین کے خلاف امریکا کا ساتھ دے۔

ٹرمپ خاندان کے نئی دہلی کے قریب لگژری ٹاور منصوبے پر تنقید کی گئی، اسی طرح ٹرمپ کے یہ عوامی دعوے بھی مسترد کیے گئے کہ بھارت-پاکستان جنگ بندی کا سہرا ان کے سر ہے، بھارت نے ان بیانات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری تصدیق شدہ رابطہ 17 جون کو ہوا تھا، جب مودی نے ٹرمپ کی درخواست پر فون پر بات کی تھی، جو پہلگام میں سیاحوں پر حملے اور بھارت کے آپریشن سندور کے بعد یہ ان کی پہلی گفتگو تھی۔

اس کال کے بعد نریندر مودی نے وضاحت کی تھی کہ بھارت-پاکستان جنگ بندی میں امریکا کی کوئی ثالثی شامل نہیں تھی، بلکہ براہِ راست دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت پاکستان کی خواہش پر ہوئی تھی۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے اعادہ کیا تھا کہ بھارت ایسے معاملات میں کبھی بھی کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔

جرمن اخبار نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام واقعات بھارت کی خارجہ پالیسی میں ایک وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، لگتا ہے کہ نئی دہلی اپنے تذویراتی شراکت داریوں کو متنوع بنا رہا ہے، اور صرف امریکی فریم ورک پر انحصار کرنے کے بجائے چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔

یہ تبدیلی اس وقت سامنے آرہی ہے جب بھارت آئندہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے تیانجن جا رہا ہے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے