چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا رواں ہفتے امریکا میں اپنے امریکی ہم منصبوں سے مشاورت کے لیے دورہ متوقع ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ دورہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا کے جولائی کے آخر میں پاکستان کے دورے کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔
4 اگست کو جاری کردہ ایک بیان میں سینٹ کام نے جنرل کوریلا کے حالیہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے دورے کو یاد کیا تھا۔
اس دورے کے دوران جنرل کوریلا کو پاکستانی حکومت کی جانب سے نشانِ امتیاز (ملٹری) سے بھی نوازا گیا تھا۔
فیلڈ مارشل اس سے قبل جون میں واشنگٹن گئے تھے، جہاں انہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کیا تھا، جو کہ ایک غیرمعمولی اعزاز ہے اور عام طور پر صرف سربراہانِ مملکت یا حکومتوں کو دیا جاتا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) یا واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اس دورے کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، لیکن اپنے گزشتہ دورے کے دوران آرمی چیف نے عندیہ دیا تھا کہ وہ سال کے آخر میں دوبارہ امریکا جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک ماہ قبل امریکی جنرل نے کانگریس کی سماعت کے دوران پاکستان کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ’شاندار شراکت دار‘ قرار دیا تھا اور خطے میں ’امن و استحکام کے فروغ‘ میں پاکستان کے کردار کی بھی تعریف کی تھی۔
گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے سربراہ نے چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) فیلڈ مارشل عاصم منیر کے صدر بننے سے متعلق افواہوں کو مسترد کر دیا تھا۔
ان کا یہ بیان جولائی کے اوائل میں وزیر داخلہ محسن نقوی کے اسی نوعیت کے ردعمل کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ صدر سے استعفیٰ لینے یا آرمی چیف کے صدر بننے کے بارے میں کوئی تجویز زیر غور نہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حالیہ انٹرویو میں ’دی اکانومسٹ‘ کو بتایا کہ آرمی چیف کے صدر بننے کی باتیں ’بے بنیاد‘ ہیں۔