کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ نے پولیس شہید اہلکار ہیڈ کانسٹیبل ظہور عالم کے بیٹے محمد عالم کی دائر کردہ توہین عدالت درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت بلوچستان کو سخت تنبیہ کی ہے کہ دو ہفتوں کے اندر اندر شہید پیکیج کی مکمل ادائیگی کی جائے، بصورت دیگر چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور وزیر اعلی کے پرنسپل سیکرٹری کو عدالت میں ذاتی حیثیت میں طلب کیا جائے گا۔جسٹس جناب محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس جناب نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود حکومتی تاخیر ناقابلِ قبول ہے۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ 30 ستمبر 2024 کو عدالت کی جانب سے واضح فیصلہ جاری ہوا تھا، جس پر تاحال مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے صرف ایک مشروط نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ شہید پیکیج کی ادائیگی سپریم کورٹ کے کسی متوقع فیصلے سے مشروط ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایسا کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا۔ عدالت نے یہ مقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کسی افسر یا اتھارٹی کی منظوری سے مشروط نہیں ہوسکتا۔عدالت نے قرار دیا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 190 کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے تحت تمام انتظامی ادارے عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ اگر اس روش کو نہ روکا گیا تو آئینی حکمرانی کا تصور خطرے میں پڑ جائے گا۔عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ عدالتی حکم نامہ تمام انتظامی افسران تک فوری طور پر پہنچایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے رویے کو روکا جا سکے۔
عدالت نے حکومت بلوچستان کو حکم دیا کہ 2 ہفتوں میں ظہور عالم شہید کے قانونی ورثا کو مکمل معاوضہ فراہم کیا جائے۔عدالت نے مزید سماعت 18 جون 2025 کو مقرر کرتے ہوئے سختی سے کہا کہ اس بار بھی عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہوا تو سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔یہ فیصلہ بلوچستان میں عدالتی بالادستی، انصاف کی فراہمی اور شہدا کے خاندانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔