بدھ, اپریل 30, 2025
ہوماہم خبریںبلوچستان کی خبریںبلوچستان کے مسئلے کا حل بزور بندوق نہیں مذاکرات ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک...

بلوچستان کے مسئلے کا حل بزور بندوق نہیں مذاکرات ہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

کوئٹہ:نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سنگل پارٹی ایک نعرہ ہوسکتا ہے لیکن حقیقت نہیں بن سکتی سردار اختر مینگل کے مطالبات کو حکومت تسلیم کریں خواتین کو جیلوں سے فوری رہا کیا جائے بلوچستان کے مسئلے کا حل بزور بندوق نہیں مذاکرات ہیں اس وقت بلوچ ملٹرنس اور اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں بلوچستان کے عوام ریاست سے دور ہورہے ہیں بلوچستان میں الیکشن نہیں آکشن تھا بلوچستان کے عوام بے زار ہوگئے ہیں بلوچستان کے بارڈر سے 80فیصد ٹوکن یا چیک پوسٹوں کی نظر ہوتے ہیں وزیر اعلی شپ لے کر اس بوڑھاپے میں اپنے کو خوار نہیں کروں گا مسلم لیگ کے ساتھ تیس سال جدوجہد کی مسلم لیگ ن کو حکومت ملی ہمارے نصیب میں ڈنڈے آگئے ان خیالات کا اظہار انہوں نے:نجی ٹی وی:سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیاڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس سے پہلے جو احتجاج بلوچستان میں ہوئے ہیں ان کی بنیاد ی وجہ یہاں کے حالات ہیں حکومت کو چاہیے بلوچستان کے عوام کی بنیادی مسائل پر توجہ دیں حکومت سے ہم نے اپیل کی ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین اور سیاسی کارکنوں کو رہا کریں تھری ایم پی او کے تحت دفعات لگانا یہ ڈکٹیٹر شپ کے زمانے کے دفعات ہیں حکومت سردار اختر جان مینگل سے مذاکرات کر کے ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیں بلوچستان بھر میں آج بھی احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں راستے بند ہیں لوگ مشکلات کے شکار ہیں جس کے منفی اثرات عوام اور ریاست کے درمیان ڈالتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ سردار اختر مینگل کے مطالبات کو حکومت تسلیم کریں اور خواتین کو جیلوں سے فوری رہا کیا جائے بلوچستان میں سنگل پارٹی ایک نعرہ ہوسکتا ہے لیکن حقیقت نہیں بن سکتی بلوچستان کے حالات اب کچھ اور ہیں پچھلے الیکشن میں محمود خان اچکزئی اور سردار اختر جان مینگل کو کہا تھا کہ بجائے بڑی پارٹیوں میں اتحاد کرکے اپنا وقت ضائع کریں کیوں نہ ہم بلوچستان کے لیول پر ایک اتحاد بنائیں جس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پشتون بلوچ عوام کی پارٹیا شامل ہو ہم خود بلوچستان میں ایک طاقت رکھتے ہیں پھر سردار اختر جان مینگل اور محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن میں شمولیت کی ہم اس اتحاد کا حصہ نہیں بنیں کیونکہ تینوں بڑی پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور بلوچستان کو مکمل طور پر ان کے گرفت میں چھوڑا ہے زرداری اور میاں نواز شریف سے بلوچستان کے حوالے سے رابطہ ہوا ہے بلوچستان کے مسئلے کا حل بزور بندوق نہیں مذاکرات ہیں انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچ ملٹرنس اور اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں حکومت کو سردست لاپتہ افراد کی بازیابی کرنی ہوگی جو قصور وار ہیں ان کو سزادیں اور جو بے قصور ہیں ان کو آزاد کریں بلوچستان میں الیکشن نہیں آکشن تھا بلوچستان کے عوام بے زار ہوگئے ہیں آپ بلوچستان کے عوام کی بنیاد ی مسائل حل کریں بلوچستان کے عوام ریاست سے دور ہورہے ہیں بلوچستان کے بارڈر سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہیں بارڈر کاروبار سے 80فیصد ٹوکن یا چیک پوسٹوں کی نظر ہوتے ہیں یہ کاروبار ہماری حکومت میں بلکل فری تھا انہوں نے کہا کہ میں پارٹی کا پابند کارکن ہو ں پارٹی نے مجھے اگر بلوچستان حکومت کو ہیڈ کرنے کے لیے کہا کہ آپ کا رائے کیا ہے میں اس حکومت کا کابینہ کا حصہ بننے کے لیے بلکل تیار نہیں ہوں میں کابینہ میں شامل تمام لوگوں کو بخوبی جانتا ہوں میں وزیر اعلی شپ لے کر اس بوڑھاپے میں اپنے کو خوار نہیں کروں گا کونسا ایسا دور ہے جو بلوچستان میں مار کٹائی نہیں ہوئی ہے اگر کوئی اچھی پارلیمنٹ اور کابینہ ہوتی پھر بات کرسکتے تھے موجودہ اسمبلی کے حق میں نہیں ہوں باقی پارٹی زوراور ہیں ہمیں اس حکومت میں تین وزارتوں کی آفر ملی ہم نے انکار کیا ہم نا امید لوگ نہیں ہیں جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور عدم تشدد کے پیروکار ہیں بلوچستان کو سیاسی طور پر ڈیل کریں اسلام آباد کے لیے بلوچستان کے دو چیزیں اہمیت کے حامل ہیں بلوچستان کی سرحدوں کی تحفظ اور ان کے وسائل کی لوٹ مار اور عوام سے ان کا کوئی سرو کار نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ ن کے ساتھ تیس سال جدوجہد کی اور 2024میں مسلم لیگ ن کو حکومت ملی ہمارے نصیب میں ڈنڈے آگئے جو سیٹیں ہم نے بلوچستان سے جیتی تھی وہ بھی ہم سے چھین کر لے گئے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے