پاکستان کی خلائی ایجنسی نے اتوار کے روز ملک کے پہلے ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ (HS-1) کو چین کے ایک لانچ سینٹر سے خلا میں روانہ کر دیا۔
دفترِ خارجہ نے اسے پاکستان کے خلائی پروگرام میں ایک ’اہم پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔
ہائپر اسپیکٹرل امیجنگ ایک جدید کیمرہ ٹیکنالوجی ہے، جو سیٹلائٹ میں زمین اور خلا کے مطالعے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
جرنل آف کمپیوٹیشنل انٹیلیجنس اینڈ نیوروسائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی عام سیٹلائٹ کیمروں سے مختلف ہے، کیوں کہ عام کیمرے صرف چند رنگوں (جیسے سرخ، سبز، اور نیلا) کو قید کرتے ہیں، جب کہ ہائپر اسپیکٹرل کیمرے سیکڑوں انتہائی باریک رنگی بینڈز کو ریکارڈ کرتے ہیں، اس سے وہ نوری فرق معلوم کیے جا سکتے ہیں جو انسانی آنکھ یا عام سیٹلائٹ نہیں دیکھ سکتے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے چین کے سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے پاکستان کے پہلے ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ (HS-1) کی کامیاب لانچ کے ساتھ ایک بڑا سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔
بیان کے مطابق، HS-1 جدید ہائپر اسپیکٹرل امیجنگ ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو سیکڑوں باریک اسپیکٹرل بینڈز میں ڈیٹا حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ’یہ ٹیکنالوجی زمین کے استعمال، سبزیات کی صحت، آبی وسائل، اور شہری ترقی کی درست نگرانی اور تجزیے کو ممکن بنائے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ سیٹلائٹ درست زراعت، ماحولیاتی نگرانی، شہری منصوبہ بندی، اور آفات کے انتظام جیسے شعبوں میں قومی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کرے گا۔
’اس کے اعلیٰ ریزولوشن ڈیٹا سے وسائل کے بہتر انتظام میں مدد ملے گی اور پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مضبوطی حاصل ہوگی‘۔
HS-1 سے توقع ہے کہ وہ ’چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے ترقیاتی منصوبوں میں حصہ ڈالے گا، جیو-خطرات کی نشاندہی کرے گا اور پائیدار انفرااسٹرکچر کی ترقی کو فروغ دے گا۔
دفترِ خارجہ نے اس پیش رفت کو ’پاکستان کے خلائی پروگرام میں ایک اہم سنگِ میل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لانچ ’سپارکو کے اس عزم کی توثیق ہے کہ وہ قومی ترقی کے لیے خلائی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہے‘۔
مزید کہا گیا کہ یہ پیش رفت پاکستان اور چین کے درمیان خلا کی پُرامن تلاش اور سماجی و معاشی ترقی کے لیے اس کے استعمال میں طویل المدتی تعاون کو اجاگر کرتی ہے۔
وزیرِ خارجہ محمد اسحٰق ڈار نے HS-1 پر کام کرنے والی پاکستان اور چین کی سائنسی و تکنیکی ٹیموں کو ان کی لگن، پیشہ ورانہ مہارت، اور مثالی تعاون پر سراہا۔
15 اکتوبر کو سپارکو نے چین کے جیوکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے HS-1 سیٹلائٹ کی لانچ کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ماہ سپارکو کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ ادارہ آفات کے خطرات کے انتظام کے فریم ورک میں خلائی بنیادوں پر مبنی ایپلی کیشنز کو ضم کر رہا ہے، جس سے سائنسی بنیادوں اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی راستہ ہموار ہو رہا ہے تاکہ قدرتی آفات کے لیے بہتر تیاری کی جا سکے۔
جولائی میں وزارتِ خارجہ نے چین سے ایک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی کامیاب لانچ کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد پاکستان کی زرعی نگرانی اور آفات کے انتظام سمیت دیگر صلاحیتوں کو مضبوط بنانا تھا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق اگست میں پاکستان نے چین کے لانچ سینٹر سے ایک اور ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کامیابی سے لانچ کیا تھا، جس کا مقصد بھی زرعی نگرانی اور آفات کے انتظام میں پاکستان کی صلاحیت کو مزید بہتر بنانا تھا۔
سیٹلائٹ کے خلا میں روانگی کے مشن کی تکمیل پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔
پاکستان کا یہ مشن قومی خلائی پالیسی اور وژن 2047 کا اہم سنگِ میل ہے، سال 2025 میں خلا میں بھیجا جانے والا یہ پاکستان کا تیسرا سیٹلائٹ ہے۔
پاکستانی سائنس دانوں اور انجینئرز کی موجودگی میں لانچ کی تیاریاں مکمل کی گئیں، ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ سیلابوں، لینڈ سلائیڈز اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگوئی میں مدد گار اور معاون ثابت ہوگا۔
سال 2025 میں خلا میں بھیجا جانے والا یہ پاکستان کا تیسرا سیٹلائٹ ہے، اس سے قبل ’ای او ون‘ جنوری 2025 اور ’کے ایس ون‘ جولائی 2025 میں کامیابی سے خلا میں بھیجے جا چکے ہیں۔
دونوں سیٹلائٹس اس وقت مکمل طور پر فعال ہیں، پاکستان کا خلائی پروگرام جدید ٹیکنالوجی اور ایپلی کیشنز کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔