سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ضابطہ اخلاق میں وسیع پیمانے پر ترامیم کی منظوری دے دی، جن کے تحت ججوں کو عوامی تنازع یا میڈیا سے رابطے سے، خصوصاً سیاسی معاملات پر باز رہنے کا پابند بنایا گیا ہے، اور سماجی و سفارتی سرگرمیوں پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی کی زیرِ صدارت اجلاس میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور منیب اختر نے ورچوئلی شرکت کی، جب کہ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔
متبادل آرٹیکل 5 کے تحت ججوں کو متنازع معاملات اور سیاسی سوالات پر (حتیٰ کہ اگر ان میں قانونی پہلو بھی شامل ہوں) عوامی طور پر اظہارِ خیال، تحریر، مباحثہ یا تبصرے سے منع کر دیا گیا ہے۔
ججوں کو میڈیا سے رابطے سے بھی روکا گیا ہے، خصوصاً ان امور پر جن سے عوامی بحث چھڑنے یا عدالتی نظم و ضبط متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔
اگر کسی جج کے خلاف الزامات عوامی طور پر عائد کیے جائیں، تو یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے 4 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے تحریری طور پر رجسٹرار کے ذریعے رکھا جائے گا تاکہ ادارہ جاتی جواب دیا جا سکے۔
جج عدالتی یا انتظامی امور پر عوامی تبصرہ نہیں کر سکیں گے، اور نہ ہی ذاتی یا سرکاری امور سے متعلق مراسلات ظاہر کر سکیں گے۔
یہ ترامیم 12 جولائی کو کیے گئے ایک فیصلے کے تسلسل میں زیرِ غور آئیں اور کچھ تبدیلیوں کے بعد اکثریتی منظوری سے پاس کر کے انہیں سرکاری گزٹ میں شائع کرنے، تمام اعلیٰ عدالتوں کے ججوں میں تقسیم کرنے اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کرنے کا حکم دیا گیا۔
2009 کا سابقہ ضابطہ ججوں کو تشہیر اور سیاسی تنازع سے بچنے کی ہدایت دیتا تھا، مگر اس میں میڈیا سے رابطے پر پابندی یا ادارہ جاتی ردِعمل کا طریقہ شامل نہیں تھا۔
آرٹیکل 12 کے تحت ججوں کو سماجی، ثقافتی یا سفارتی تقاریب کی صدارت یا شرکت سے اجتناب کا پابند بنایا گیا ہے۔
آرٹیکل 13 کے مطابق، غیر ملکی یا بین الاقوامی اداروں سے کانفرنس یا اجلاس کی دعوت طلب کرنا بدعنوانی تصور ہوگا، اگر ایسی دعوت ذاتی طور پر موصول ہو تو متعلقہ چیف جسٹس کے ذریعے بھیجی جائے گی۔
آرٹیکل 14 ججوں کو بار کے انفرادی اراکین کی طرف سے ان کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیوں یا ضیافتوں میں شرکت سے منع کرتا ہے۔
آرٹیکل 15 کے مطابق، ججوں کو مقدمات کا فیصلہ صرف میرٹ پر کرنا ہوگا، اور ان میں اخلاقی استقامت اور ذہنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کو برداشت کر سکیں، اگر کسی معاملے میں ان کے قانونی اختیارات ناکافی ہوں، تو وہ فوراً ادارہ جاتی ردِعمل طلب کریں گے۔
ججوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے دباؤ یا اثر و رسوخ کی تحریری اطلاع چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے 4 سینئر ججوں کو (رجسٹرار کے ذریعے) دیں۔
ہائی کورٹ کے جج اپنے متعلقہ چیف جسٹس کو بھی مطلع کریں گے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ان رپورٹس کو دو دن کے اندر 3 رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے، اور کمیٹی کو 15 دن میں فیصلہ دینا ہوگا۔
عدالتی فیصلوں کو ممکنہ حد تک جلد کیا جائے گا، اور منصفانہ سماعت اور واجب عمل کے اصولوں پر عمل کیا جائے گا۔
اگر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس یا کمیٹی مقررہ مدت میں کارروائی نہ کرے تو چیف جسٹس پاکستان چار سینئر ججوں کے ہمراہ یہ معاملہ خود سنبھالیں گے۔
یہ ضابطہ، جو 1962 میں ایس جے سی کے ذریعے مرتب کیا گیا تھا اور اب 18 اکتوبر 2025 تک ترمیم شدہ صورت میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت نافذ ہے، تمام اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر لازمی طور پر لاگو ہے۔
آرٹیکل 1 تا 4 اور 6 تا 11، جن کا تعلق ذاتی رویے، علیحدگی، مالی معاملات، غیر عدالتی کردار، تحائف، باہمی تعاون، بروقت فیصلے، اور آئینی حلف کی پاسداری سے ہے، برقرار رکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب، ایس جے سی نے آرٹیکل 209 کے تحت دائر 67 شکایات کا جائزہ لیا، جن میں سے 65 متفقہ طور پر نمٹا دی گئیں، ایک مؤخر اور ایک پر مزید کارروائی کا فیصلہ اکثریتی ووٹ سے کیا گیا۔
بعد ازاں کونسل کو آرٹیکل 209(3b) کے تحت دوبارہ تشکیل دیا گیا، جس میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو شامل کیا گیا، کیوN کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کچھ ایجنڈا آئٹمز پر شرکت سے معذرت کی تھی۔
نئی تشکیل شدہ کونسل نے مزید 7 شکایات کا جائزہ لیا، جن میں سے 5 بند کر دی گئیں جب کہ دو پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
باخبر ذرائع کے مطابق، ایس جے سی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف شکایت کو 20 نومبر تک مؤخر کر دیا، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک اور جج کو تاخیر سے فیصلہ سنانے کے الزام پر نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
ہفتے کے اجلاس میں مجموعی طور پر 74 شکایات پر فیصلے کے بعد 87 مقدمات ابتدائی غور کے مرحلے میں باقی ہیں۔
اکتوبر 2024 سے اب تک، ایس جے سی 155 معاملات پر کارروائی کر چکی ہے۔