پاکستان کی جانب سے امریکا کو پسنی کی بندرگاہ تک رسائی کی پیشکش کرنے کے بارے میں بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سینئر سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ نجی یا تجارتی اداروں سے متعلق کوئی بھی بات چیت ’ریاستی اقدامات‘ نہیں ہوتے بلکہ یہ بات چیت ’تحقیقات‘ کے مقصد سے ہوتی ہے۔ تاہم اس معاملے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
فنانشل ٹائمز (ایف ٹی) کے مطابق، اس تجویز پر چند امریکی اہلکاروں سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل یہ خیال آرمی چیف سے بھی شیئر کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرمی چیف کے ’مشیروں‘ (پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آرمی چیف کے کوئی سرکاری مشیر نہیں) نے بحیرہ عرب پر بندرگاہ بنانے اور اس کا انتظام سنبھالنے کی تجویز کے حوالے سے امریکیوں سے رابطہ کیا تھا۔
فنانشل ٹائمز نے کہا کہ یہ منصوبہ امریکی سرمایہ کاروں کو پسنی میں ایک بندرگاہ قائم کرنے اور اس کا انتظام دینے کا تصور پیش کرتا ہے تاکہ پاکستان کے معدنیات کے اہم شعبے تک امریکی رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔
یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے جو ہماری خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی سے متعلق ہے اور اگر یہ دعویٰ بے بنیاد ہے تو سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے ایف ٹی رپورٹ کی سختی اور عوامی سطح پر تردید کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس رپورٹ میں عسکری قیادت کی متعلقہ مذاکرات میں شمولیت کا ذکر کیا گیا ہے۔
ابھی تک دفتر خارجہ سمیت حکومت کی جانب سے امریکی حکام یا نجی کمپنیز کے ساتھ بندرگاہ پر ہونے والی بات چیت کے حوالے سے کوئی سرکاری تردید سامنے نہیں آئی ہے۔ اس انتہائی حساس معاملے پر صرف ایک وضاحت نامعلوم سیکیورٹی ذرائع سے آئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر منتخب میڈیا پرسنز کو بتایا کہ ایف ٹی رپورٹ سرکاری حکومت یا فوجی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاستی میڈیا ہاؤس پی ٹی وی نے بھی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’نجی کمپنیز کے ساتھ بات چیت ابتدائی نوعیت کی تھی، سرکاری سطح کی کی کوئی باضابطہ پیش رفت نہیں تھی‘۔
مزید کہا کہ ’پسنی کی سیکیورٹی کسی غیر ملکی طاقت کے حوالے کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے‘۔ یہ وضاحت نامعلوم سیکیورٹی ذرائع سے آئی ہے جبکہ سرکاری ڈیجیٹل میڈیا کی جانب سے پیش کی گئی اس وضاحت نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔
بندرگاہ کے منصوبے پر نجی امریکی اداروں کے ساتھ کچھ ’ابتدائی نوعیت‘ کی بات چیت ہوئی ہے اور سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی اقدام نہیں تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اقدام کس نے کیا؟ ذرائع کی جانب سے یہ ایک انتہائی مبہم بیان ہے جو ایف ٹی رپورٹ سے انکار نہیں کرتا۔ کیا ایسے حساس معاملے پر ’ابتدائی‘ مشاورت کو بھی حکومت کی منظوری کے بغیر نجی اقدام قرار دیا جا سکتا ہے؟
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اخبار نے پسنی بندرگاہ کے ’جرأت مندانہ منصوبے‘ کو دیکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بندرگاہ پر 1.2 ارب ڈالرز تک کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ فنڈنگ ایک ایسے مالیاتی ماڈل کے تحت ہوگی کہ جس میں پاکستانی حکومت اور امریکی حمایت یافتہ ترقیاتی مالیاتی ادارے رقم فراہم کریں گے۔
ایف ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اسکیم، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کی رفتار برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی حکام کی جانب سے عوامی و نجی سطح پر پیش کیے جانے والے متعدد خیالات میں سے ایک ہے‘۔ تاہم ممتاز عالمی اشاعتی ادارے کی جانب سے کیے جانے والے ان دعووں پر ذرائع کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا ہے۔
تزویراتی طور پر واقع ایک چھوٹا سا ساحلی قصبہ پسنی، بحریہ کے ہوائی اڈے اور فوجی ہوائی اڈے کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس بندرگاہ کی اسٹریٹجک اہمیت ہے۔ پسنی چین کی حمایت یافتہ گوادر بندرگاہ سے تقریباً 110 کلومیٹر جبکہ پاک-ایران سرحد سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر مجوزہ بندرگاہ کو تعمیر کرنے اور انتظام سنبھالنے کے لیے امریکا کے حوالے کردیا جاتا ہے تو اس کے سنگین جغرافیائی سیاسی اثرات نہ صرف ملک بلکہ خطے پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
بندرگاہ کا منصوبہ پاکستان کی معدنیات بالخصوص نایاب زمینی معدنیات میں امریکا کی دلچسپی سے منسلک ہے جوکہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری، قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار، الیکٹرانکس اور دفاعی نظام کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز کا ایک اہم جزو ہیں۔
معدنیات کی بڑھتی مانگ ایک اہم وجہ معلوم ہوتی ہے جس کی بنیاد پر امریکا اور پاکستان دوبارہ ایک دوسرے کے قریب ہورہے ہیں۔ جبکہ وائٹ ہاؤس میں سول اور عسکری قیادت کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کو نایاب زمینی معدنیات کا ایک ڈبہ پیش کیے جانے کے مناظر بھی جاری کیے گئے تھے۔
میسوری میں قائم کمپنی یو ایس اسٹریٹجک میٹلز (یو ایس ایس ایم) نے حال ہی میں پاکستان کے ملٹری انجینئرنگ گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے ایک مفاہمتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کمپنی ایک ریفائنری بھی بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں اہم اور نایاب زمینی معدنیات کی ایک معمولی پہلی کھیپ یو ایس ایس ایم کو بھیجی ہے جس میں تانبا، اینٹیمونی اور نیوڈیمیم شامل تھے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ نمونے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے تعاون سے مقامی طور پر تیار کیے گئے تھے۔
نایاب زمینی معدنیات کی اس پہلی ترسیل کو ’پاک-امریکا اسٹریٹجک شراکت داری میں ایک اہم سنگ میل‘ کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے جو معدنی اقدار کے حوالے سے تعاون کا ایک روڈ میپ تیار کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
غیرملکی سرمایہ کاری راغب کرنا ایک مثبت اقدام ہو سکتا ہے جوکہ پاکستان کے لیے انتہائی ضروری بھی ہے خاص طور پر معدنیات کے شعبے میں اس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے لیکن اسٹریٹجک اعتبار سے اہمیت کے حامل خطے میں ان اہم وسائل میں دلچسپی رکھنے والی غیرملکی کمپنیز کے ساتھ معاملات طے کرتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے۔
ان میں سے زیادہ تر معدنیات شورش زدہ بلوچستان اور شمال مغربی قبائلی علاقوں میں واقع ہیں۔ ان علاقوں میں کئی سالوں سے زیادہ تر پروجیکٹس میں چینی سرمایہ کاری شامل رہی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی کمپنیز کی موجودگی، دو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ کو مزید سنگین نہیں بنا دے گی؟ پاکستان کی چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹریٹجک شراکت داری ہے جوکہ اب ایک گہرے اقتصادی تعلقات میں تبدیل ہوچکی ہے۔
دوسری جانب تاریخی اعتبار سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اچھے وقتوں میں بھی تعلقات لین دین کے مفادات پر مبنی رہے ہیں جبکہ دونوں نے کبھی کبھی مشترکہ اسٹریٹجک مفادات پر بھی ساتھ کام کیا۔
گزشتہ کئی سالوں تک تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ واشنگٹن کے بدلتے مزاج سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے لیکن ہمارے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوقع مزاج کو سمجھنا بھی ضروری ہوگا۔
ان حقائق کے پس منظر میں فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کافی پریشان کُن ہے۔ جبکہ حکومت کی اس پر خاموشی بھی اتنی ہی تشویشناک ہے۔ تمام غیرملکی معاہدوں کی شفافیت کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے انہیں پیش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ملک اپنے قومی اور سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرے۔