امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی اسمگلنگ (ٹی آئی پی) رپورٹ 2025 میں پاکستان اور بھارت دونوں کو ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے، جو انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے کم از کم معیارات پر پورا نہیں اترتے، لیکن اس مقصد کے لیے ’نمایاں کوششیں‘ کر رہے ہیں۔
واشنگٹن میں جاری کی گئی اس سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے انسانی اسمگلنگ کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ انسانی اسمگلنگ کو جدید دور کی غلامی قرار دیتا ہے جس میں جبری مشقت، جنسی استحصال اور جبر کی دیگر صورتیں شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے ملک کے طور پر شناخت ہوا ہے جہاں مرد، خواتین اور بچے خاص طور پر افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے آنے والے تارکین وطن جبری مشقت کا شکار ہوتے ہیں، اسمگلرز افغانستان، ایران اور دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں (اور کم حد تک لڑکوں) کو پاکستان کے اندر جنسی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ رپورٹ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ خود کو ہم جنس پرست یا دو جنسی رجحان رکھنے والے افراد کے طور پر شناخت کرنے والے لوگ استحصال کے شدید خطرے سے دوچار رہتے ہیں، چونکہ پاکستان میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا گیا ہے، ان افراد کو منظم امتیاز اور تشدد کا سامنا رہتا ہے، جو ان کے اسمگلنگ کے خطرات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے امریکی حکام کو بتایا کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد، بشمول نام نہاد ’غیرت کے نام پر قتل‘، انہیں اسمگلنگ نیٹ ورکس کے لیے خاص طور پر کمزور بنا دیتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پناہ گزین اور ریاست سے محروم افراد سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، اس میں وہ افغان بھی شامل ہیں جن کے پاس درست کاغذات نہیں ہیں، بنگالی، بہاری اور روہنگیا نژاد ریاستی شناخت سے محروم افراد، نیز مذہبی اور نسلی اقلیتیں جیسے کہ عیسائی، ہندو دلت اور ہزارہ، ان میں سے کئی گروہ جبری مشقت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
افغان باشندے (خواہ غیر رجسٹرڈ تارکین وطن ہوں یا رجسٹرڈ پناہ گزین) انہیں حکام کی جانب سے بار بار ہراساں کیے جانے اور ملک بدر کیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے، قانونی تحفظات کی کمی کے باعث وہ غیر رسمی معیشت میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں ان کا آسانی سے استحصال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان پر یہ تنقید بھی کی گئی کہ ملک میں ’ریاستی شناخت سے محروم افراد‘ کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے، بین الاقوامی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق ملک میں لاکھوں ریاستی شناخت سے محروم افراد شناختی دستاویزات اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، جس کے باعث وہ خاص طور پر اسمگلروں کا نشانہ بنتے ہیں۔
رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اسمگلرز پاکستان میں روہنگیا نسل کے بے ریاست افراد اور افغان باشندوں کو جبری مشقت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح بھارت کو بھی ٹیئر 2 میں رکھا گیا ہے، یعنی ایسے ممالک جو کوشش تو کر رہے ہیں مگر کم از کم معیارات پر پورا نہیں اترتے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت نے پچھلے عرصے کے مقابلے میں مجموعی طور پر بڑھتی ہوئی کوششیں کی ہیں، مثبت اقدامات میں بچوں سے متعلق جرائم (بشمول اسمگلنگ) کے مقدمات نمٹانے والی خصوصی عدالتوں کے لیے زیادہ فنڈنگ، آگاہی مہمات، اور جنوب مشرقی ایشیا میں آن لائن فراڈ میں پھنسائے گئے بھارتی شہریوں کی واپسی شامل ہیں۔
بھارتی حکومت نے محفوظ بیرونِ ملک روزگار سے متعلق آگاہی پروگراموں میں بھی اضافہ کیا اور ریلوے پروٹیکشن فورس کے ذریعے متاثرین کی شناخت کے طریقہ کار بہتر بنائے، ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ انسانی اسمگلنگ کو روکا جائے اور غیر ملکی متاثرین کو ان امیگریشن خلاف ورزیوں پر سزا نہ دی جائے جو براہِ راست اسمگلنگ کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔
تاہم، نئی دہلی جامع قومی ڈیٹا فراہم کرنے میں ناکام رہا کہ کتنی تحقیقات، مقدمات اور اسمگلروں کو سزائیں ہوئیں، متاثرین کے لیے سہولتیں ناکافی رہیں اور ریاست سے ریاست مختلف تھیں، جب کہ عدالتیں شاذونادر ہی متاثرین کو مالی معاوضہ دیتی ہیں، جس کے باعث کئی متاثرین برسوں تک منتظر رہتے ہیں۔
بھارت میں بین الوزارتی کمیٹی کی عدم موجودگی نے انسدادِ اسمگلنگ پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوششوں کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر کیسز خاص طور پر جبری مشقت سے متعلق کو غلط درجہ دیتے ہیں، اور کچھ سرکاری اہلکاروں میں کرپشن نے یہ تاثر دیا کہ اسمگلروں کو سزاؤں سے استثنیٰ حاصل ہے۔