ایسے وقت میں جب زیادہ تر لوگ لکھنے کے لیے کی بورڈ استعمال کرتے ہیں، کیا ہاتھ کی لکھائی (ہینڈ رائٹنگ) واقعی اہمیت رکھتی ہے؟ جی بالکل! بھارتی عدالتوں کے مطابق اگر لکھنے والا ڈاکٹر ہے تو ہاتھ کی لکھائی اہم ہے۔
ڈاکٹروں کی بدخط تحریر پر لطیفے عام ہیں، جنہیں صرف کیمیا فروش (فارماسسٹ) ہی پڑھ سکتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس بات پر زور دیا کہ ’قابلِ فہم طبی نسخہ بنیادی حق ہے‘ کیونکہ یہ زندگی اور موت کے درمیان فرق ڈال سکتا ہے۔
یہ عدالتی حکم ایک ایسے مقدمے میں آیا ہے، جس کا براہِ راست تعلق لکھائی سے نہیں تھا، اس میں ایک خاتون کی طرف سے ریپ، دھوکا دہی اور جعل سازی کے الزامات شامل تھے، اور جسٹس جسگورپریت سنگھ پوری ملزم کی ضمانت کی درخواست سن رہے تھے۔
خاتون نے الزام لگایا تھا کہ ملزم نے سرکاری ملازمت دلانے کا وعدہ کر کے اس سے پیسے لیے، اس کے ساتھ جعلی انٹرویوز کیے اور جنسی استحصال کیا، ملزم نے الزامات کی تردید کی، اس نے کہا کہ ان کے درمیان تعلق رضامندی سے تھا اور مقدمہ پیسے کے جھگڑے کی وجہ سے بنایا گیا ہے۔
جسٹس جسگورپریت سنگھ پوری نے کہا کہ جب انہوں نے میڈیکو-لیگل رپورٹ دیکھی، جو سرکاری ڈاکٹر نے خاتون کے معائنے کے بعد لکھی تھی، وہ تو ناقابلِ فہم تھی۔
انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ یہ عدالت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا لمحہ تھا، کیونکہ ایک لفظ یا ایک حرف بھی پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔
بی بی سی نے اس فیصلے کی کاپی دیکھی ہے جس میں رپورٹ اور دو صفحات پر مشتمل نسخہ شامل ہے، جس پر ڈاکٹر کی ناقابلِ پڑھائی لکھائی درج تھی۔
جسٹس جسگورپریت سنگھ پوری نے فیصلے میں لکھا کہ ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر آسانی سے دستیاب ہیں، یہ حیران کن ہے کہ سرکاری ڈاکٹر اب بھی ہاتھ سے ایسے نسخے لکھتے ہیں، جنہیں شاید چند کیمیا فروشوں کے سوا کوئی نہیں پڑھ سکتا۔
عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ میڈیکل اسکول کے نصاب میں خوشخطی کے اسباق شامل کرے اور دو سال کے اندر ڈیجیٹل نسخے رائج کیے جائیں، جب تک ایسا نہیں ہوتا، تمام ڈاکٹرز کو نسخے بڑے حروف (کیپیٹل لیٹرز) میں واضح طور پر لکھنے ہوں گے۔
3 لاکھ 30 ہزار سے زائد ارکان کی حامل انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر دلیپ بھانوشالی نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
ان کے مطابق شہروں اور بڑے قصبوں میں ڈاکٹرز ڈیجیٹل نسخے لکھنے لگے ہیں، لیکن دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں واضح نسخے پانا بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ کئی ڈاکٹرز کی لکھائی خراب ہوتی ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر معالج بہت مصروف ہوتے ہیں، خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں جہاں بے پناہ رش ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے ممبران کو سفارش کی ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل کریں اور نسخے جلی حروف میں لکھیں تاکہ وہ مریض اور کیمیا فروش دونوں پڑھ سکیں، اگر کوئی ڈاکٹر روز 7 مریض دیکھتا ہے تو یہ کر سکتا ہے، لیکن اگر روزانہ 70 مریض دیکھنے ہوں تو یہ ممکن نہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی بھارتی عدالت نے ڈاکٹروں کی بدخطی پر سوال اٹھایا ہو، ماضی میں اڑیسہ ہائی کورٹ نے ڈاکٹروں کی ٹیڑھی میڑھی لکھائی پر اعتراض کیا تھا جب کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے افسوس ظاہر کیا تھا کہ رپورٹس اتنی خراب لکھائی میں لکھی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔
تاہم تحقیقات اس عام تاثر کی تائید نہیں کرتیں کہ ڈاکٹروں کی لکھائی دوسروں سے زیادہ خراب ہوتی ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی لکھائی پر زور دینا خوشنما پن یا سہولت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسا طبی نسخہ جو ابہام یا غلط فہمی پیدا کرے، سنگین بلکہ جان لیوا نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن (آئی او ایم) کی 1999 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں میڈیکل غلطیوں کی وجہ سے ہر سال کم از کم 44 پزار اموات ہوتی تھیں، جن میں سے 7 ہزار کی وجہ ڈاکٹروں کی بدخطی تھی۔
حالیہ برسوں میں اسکاٹ لینڈ میں ایک خاتون کی آنکھوں پر کیمیائی زخم آئے تھے، جب اسے خشک آنکھ کے علاج کی دوا کے بجائے غلطی سے جنسی کمزوری کی دوا دے دی گئی تھی۔
برطانیہ کے صحت حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ادویات میں غلطیاں تباہ کن نقصان اور اموات کا باعث بنتی ہیں، اور کہا ہے کہ ہسپتالوں میں الیکٹرانک نسخہ جاتی نظام کے نفاذ سے ایسی غلطیوں میں 50 فیصد کمی لائی جا سکتی ہے۔
بھارت میں خراب لکھائی کی وجہ سے نقصان کے درست اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں نسخوں کی غلط پڑھائی کی وجہ سے پہلے بھی صحت کی ایمرجنسیوں اور کئی اموات واقع ہو چکی ہیں۔