اتوار, اگست 3, 2025
ہوماہم خبریںہیومن رائٹس کمیشن کا تنخواہ دار طبقے کیلئے کم از کم اجرت...

ہیومن رائٹس کمیشن کا تنخواہ دار طبقے کیلئے کم از کم اجرت 75 ہزار روپے مقرر کرنے کا مطالبہ

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے تنخواہ دار طبقے اور دیہاڑی دار مزدوروں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کم از کم اجرت 75 ہزار روپے مقرر کرنے اور لیبر قوانین پر مؤثر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ حیدرآباد میں منعقدہ پروگرام میں ایچ آر سی پی کے رہنماؤں اور دیگر مقررین نے کیا، پروگرام میں ’زندہ رہنے کے لیے اجرت کا حق‘ کے موضوع پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔

یہ پروگرام ایچ آر سی پی کی جانب سے شروع کی گئی ایک مہم کا حصہ تھا، جس میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں نے شرکت کی۔

اپنی تقاریر میں ایچ آر سی پی کے نمائندوں نے موجودہ کم از کم تنخواہ کو ناکافی قرار دیا اور کہا کہ اسے بڑھا کر 75 ہزار روپے ماہانہ کیا جائے، کیوں کہ ایک 5 رکنی خاندان کے لیے موجودہ رقم میں خوراک، تعلیم اور صحت کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں۔

ایچ آر سی پی کی حیدرآباد کوآرڈینیٹر غفرانہ آرائیں نے کہا کہ 75 ہزار روپے کم از کم تنخواہ کا نوٹیفکیشن تمام شعبوں پر لاگو ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، جب کہ تنخواہ دار طبقہ ان مالیاتی اداروں کی شرائط کا بوجھ برداشت کر رہا ہے، جنہیں حکومت تسلیم کر رہی ہے۔

مقررین اور کارکنان نے تمام لیبر قوانین کے مؤثر نفاذ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکمران اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 600 فیصد اضافہ کر چکے ہیں، جب کہ مزدوروں کو جینے کے لیے بنیادی اجرت کا حق بھی نہیں دیا جا رہا، سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو بڑے پیمانے پر مراعات دی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نچلے درجے کے ملازمین کو یہ کہہ کر تنخواہوں میں اضافہ نہیں دیا جا رہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط رکاوٹ ہیں۔

ایڈووکیٹ میر احمد منگریو نے کہا کہ وفاقی حکومت کی پالیسیوں کا مقصد صوبوں کے حقوق کو کمزور کرنا ہے، سندھ میں نجی شعبہ دیگر صوبوں سے مزدور بھرتی کرتا ہے، جب کہ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی پر کوئی کنٹرول نہیں اور حکومت کو کم آمدنی والے طبقے پر اس کے اثرات کی کوئی پروا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کم از کم تنخواہ کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد میں دلچسپی نہیں رکھتی، موجودہ حالات میں 40 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی ناکافی ہے۔

ترقیاتی شعبے کے کارکن کاشف بجیر نے کہا کہ بچوں سے جبری مشقت آج بھی جاری ہے حالاں کہ اس کے خلاف قوانین موجود ہیں، جبری مشقت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان قوانین پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کے 60 فیصد سے زائد مزدور کنٹریکٹ سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں، محنت کشوں کے حقوق اس وقت ہی محفوظ ہوں گے جب ان کی یونینز مضبوط ہوں گی۔

گھریلو خواتین مزدوروں کی یونین کی رہنما جمیلہ لطیف نے کہا کہ اس طبقے کی خواتین کو بھی ایک مضبوط یونین کی ضرورت ہے، اور ایسی یونین کے فوری قیام کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اور ان کی ساتھی خواتین چوڑی ساز مزدوروں کے لیے یونین بنانے لگیں تو متعلقہ کنٹریکٹرز کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں، اس کے باوجود یونین بنی اور اب خواتین مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

ایچ آر سی پی کے کونسل رکن سلیم جروار نے کہا کہ محنت کشوں کے حقوق کو یقینی بنانے والے تمام قوانین پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے، مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یونین کا قیام ناگزیر ہے، ورنہ ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

امداد چانڈیو، پشپا کماری، بوٹا امتیاز اور دیگر نمایاں کارکنان نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔

بعد ازاں شرکا نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے