پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔
قطر کی وزارتِ خارجہ نے اتوار کی صبح ایک بیان میں کہا کہ افغانستان اور پاکستان نے جنگ بندی اور دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن و استحکام کو مستحکم کرنے کے لیے طریقۂ کار کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔
دوحہ نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے آنے والے دنوں میں فالو اپ ملاقاتیں کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کے نفاذ کی قابلِ اعتماد اور پائیدار نگرانی کی جا سکے۔
اس سے قبل، دونوں فریقوں نے کہا تھا کہ وہ ہفتے کے روز دوحہ میں امن مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جا سکے، یہ مذاکرات اس وقت ہوئے جب جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے، یہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان ہونے والی بدترین جھڑپیں تھیں۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ وعدے کے مطابق پاکستانی فریق کے ساتھ مذاکرات دوحہ میں ہوں گے، کابل کا مذاکراتی وفد وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب کی سربراہی میں قطری دارالحکومت پہنچ چکا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے پہلے کہا تھا کہ ملک کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف طالبان کی قیادت کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق ’بات چیت کا محور پاکستان کے خلاف افغانستان سے ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کے فوری خاتمے اور پاک-افغان سرحد پر امن و استحکام کی بحالی کے اقدامات ہوں گے۔‘
سابقہ اتحادیوں کے درمیان سرحد پار جھڑپیں اور پاکستان کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے 2 ہزار 600 کلومیٹر طویل سرحد پر اس وقت شروع ہوئے، جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باغیوں کو قابو میں لائے، جنہوں نے پاکستان میں سرحد پار حملے تیز کر دیے ہیں، اور جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔
طالبان نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ مسلح گروہوں کو پاکستان پر حملوں کے لیے پناہ دیتے ہیں، طالبان حکومت نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہا ہے اور داعش کے جنگجوؤں کو پناہ دیکر افغانستان کے استحکام اور خودمختاری کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
اسلام آباد نے کابل کے الزامات کی تردید کی ہے، پاکستان کا کہنا ہے کہ کابل برسوں سے مسلح گروہوں کو افغانستان میں رہنے اور پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کی اجازت دیتا رہا ہے، تاکہ حکومت کا تختہ الٹ کر اپنے سخت گیر اسلامی نظام کو نافذ کر سکے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق جمعے کے روز سرحد کے قریب ایک خودکش حملے میں پاکستانی فوجی شہید اور 13 زخمی ہوئے تھے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ہفتے کے روز کیڈٹس کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پراکسی عناصر کو قابو میں لائے، جنہیں افغانستان میں پناہ گاہیں حاصل ہیں اور جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر ہولناک حملے کر رہے ہیں‘۔