پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو مبینہ طور پر پشاور سے اغوا کرلیا گیا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صنم جاوید کے اغوا کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید کے مبینہ اغوا کیخلاف پشاور کے تھانہ شرقی میں ایڈووکیٹ حرابابر دختر محمد بابر شعیب کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، مقدمہ میں اغوا اور غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنے کے دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مدعی مقدمہ نے موقف اپنایا کہ 6 اکتوبر 2025 کی رات تقریباً 10 بجکر 40 منٹ پر صنم جاوید کو سول آفیسرز میس پشاور کینٹ کے قریب سے حراست میں لیا گیا۔
متن کے مطابق سبز رنگ کی گاڑی نے صنم جاوید کی گاڑی کو روکا جب کہ پیچھے سے ایک سفید کار نے راستہ بند کر دیا، گاڑیوں سے نکلے 5 افراد نے صنم جاوید خان کو زبردستی گاڑی میں بٹھاکر ریڈ زون کی سمت لے گئے۔
پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ درج کر کے مقدمہ تفتیشی افسر ایس آئی شاہ ولی کے سپرد کر دیا گیا ہے، تفتیشی افیسر معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔
صوبائی حکومت کے مطابق وزیراعلیٰ کی سخت ہدایات پر اغوا کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے فوری کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر پر مکمل انکوائری کی جائے گی، نامعلوم افراد کی شناخت کرکے ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے رواں سال 11 اگست کو صنم جاوید کو 9 مئی 2023 کو تھانہ شادمان جلانے کے کیس میں 5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
قبل ازیں، صنم جاوید کو 27 اپریل کو ریاستی اداروں کے سربراہان کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا پوسٹس کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ گزشتہ سال بھی گرفتار ہوچکی ہیں۔
واضح رہے کہ صنم جاوید کی بہن فلک جاوید کو بھی گزشتہ ماہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی فیک ویڈیوز کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔
9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا۔
اس دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔