حماس کے ایک سینئیر رہنما نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی تنظیم ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرے گی۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سینئیر اہلکار محمد نزال نے امریکی ادارے ڈراپ سائٹس کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ سن 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس میں شامل ہوئے تھے اور تب سے مختلف اعلیٰ قیادت کے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
انٹرویو میں محمد نزال کا دوٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ، ”جب تک صہیونی ریاست فلسطینی عوام کے لیے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادہ نہیں ہوتی، اس وقت تک اسلحے سے دستبرداری ناممکن ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ، ”چاہے اسلحہ ہلکا ہو یا بھاری، کسی بھی آزادی کی تحریک میں ریاست کے قیام سے قبل اسلحہ ترک نہیں کیا گیا۔ ”مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ میں چاہے وہ جنوبی افریقہ ہو، افغانستان، ویتنام، الجزائر یا آئرلینڈ، کسی سے بھی اسلحہ ڈالنے کا مطالبہ ریاست کے قیام سے قبل نہیں کیا گیا، اور نہ ہی کسی نے اس پر رضامندی ظاہر کی ہے۔“
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ تنظیم امریکی صدر کے منصوبے پر غور کر رہی ہے اور جلد ہی اپنے مؤقف کا باضابطہ اعلان کرے گی تاکہ جلد اس جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس بطور فلسطینی مزاحمتی قوت فلسطینی عوام کے مفاد میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے غزہ سے متعلق ایک تفصیلی امن منصوبہ جاری کیا گیا تھا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی، اس کے بعد تعمیر نو کا جامع پروگرام، اور علاقے کی سیاسی و سیکیورٹی تنظیم نو کی تجویز دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 66,200 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ غزہ ناقابلِ رہائش بنتا جا رہا ہے، جہاں قحط اور بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔