کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ گلزار امام شمبے نے قومی دھارے میں واپسی کے 2 سال بعد میڈیا کو اہم انٹرویو دیا ہے۔
کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ گلزار امام شمبے نے ایک نجی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بی وائی سی اور ایسی تنظیمیں بی ایل اے کی نرسری ہیں، مختلف نوجوان طلبا تنظیموں سے بی ایل اے میں گئے ہیں اور یہ حقیقت ہے طلبا تنظیمیں بھرتی کیلئے بنائی جاتی ہیں۔
گلزار امام شمبے نے بتایا کہ نوجوان طالبعلموں کو عسکریت پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے، کالعدم تنظیموں کے آپسی جھگڑوں میں بھی شدت پسند مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال 15-2014 میں میرے اور برا ہمداخ کے حامیوں میں بھی ایسے جھگڑے ہوئے، بڑی تنظیموں میں ڈسپلن، پسند نا پسند کے نام پر آپسی جھگڑے ایک حقیقت ہے، آپسی جھگڑوں میں مارے جانے والوں کی فیملیز کو موت کی وجہ حقیقت کے برعکس بتائی جاتی ہے۔
گلزار امام شمبے نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کے حوالے سے بھی انکشافات کیے، انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب حکومت گرنے کے بعد خیر بخش مری کوئٹہ آئے تو غفار لانگو نے انہیں جوائن کیا، جب پہاڑوں کا رخ کیا تو غفار لانگو نے مسلح جدوجہد جوائن کی،۔
گلزار امام شمبے نے غفار لانگو کی ریاست مخالف سرگرمیوں کی تصدیق کر دی، انہوں نے کہا کہ بی ایل اے ہو یا دیگر تنظیمیں بھارت کی حمایت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، عطااللہ مینگل کہتے تھے پاکستان کے خلاف شیطان بھی مدد کرے تو لے لو، ساری تنظیمیں منشیات و دیگر غیر قانونی کاموں سے بھی پیسہ اکٹھا کرتی ہیں۔
گلزار امام شمبے کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے مزاحمتی تنظیمیں مفاہمت کا راستہ اختیار کرتی ہیں، ہم نے بھی عسکریت پسندی سے سیاسی جدوجہد میں واپسی کا راستہ اپنایا، سیاسی جدوجہد سے ہی مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں، عسکریت پسندی حل نہیں۔
گلزار امام شمبے کا کہنا تھا کہ افغانستان سے اسلحہ و پناہ گاہوں کی سپورٹ ملتی تھی، بی ایل اے کو آج بھی حاصل ہے، امریکی فوج کے زیر استعمال جدید آلات واسلحہ کی بلیک مارکیٹ افغانستان میں تھی، آج بھی افغانستان سے اسلحہ و دیگر ساز و سامان سپلائی ہوتا ہے۔