افغان سیاسی رہنماؤں اور خواتین کارکنوں نے پیر کو اسلام آباد میں دو روزہ مکالمے کا آغاز کیا ہے تاکہ ’افغانستان کے پر امن مستقبل کے لیے ایک اجتماعی، علاقائی طور پر حمایت یافتہ وژن کی تشکیل‘ کے طریقے تلاش کیے جا سکیں۔
پاکستان اور افغانستان کی جانب سے تعلقات (جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کی بحالی اور سفارتی تعلقات) کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جس کے بعد دوطرفہ تعلقات میں بہتری دیکھی گئی ہے۔
یہ 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ طالبان کے سیاسی مخالفین کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے، تاہم منتظمین کا اصرار ہے کہ یہ اجلاس ’طالبان حکومت کے خلاف نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اجلاس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین رہنماؤں کے درمیان جامع اور تعمیری مباحثے کو فروغ دیا جائے تاکہ مشترکہ فہم پیدا ہو اور افغانستان کے مستقبل کے استحکام، شمولیت اور پرامن تصفیے کے لیے مشترکہ اصول وضع کیے جا سکیں۔
یہ مکالمہ پہلے 25 اور 26 اگست کو ہونا تھا جسے امریکا کے سابق خصوصی نمائندہ زلمی خلیل زاد سمیت دیگر کی تنقید کے باعث موخر کردیا گیا تھا، خلیل زاد نے اس اجلاس کو ’غیر دانشمندانہ‘ قرار دیا تھا کیونکہ اس میں طالبان مخالف شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایکس پر لکھا ’افغان شہریوں کو اپنے سیاسی نظریات رکھنے کا حق ہے لیکن پاکستان کا ان کی کانفرنس کی میزبانی کے ذریعے ان کی حمایت ظاہر کرنا نہایت غیر دانشمندانہ اور دانستہ اشتعال انگیزی ہے۔
سابق افغان پارلیمنٹیرین فوزیہ کوفی نے ان ریمارکس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ’کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہمیں یہ اختیار دیا جائے کہ ہم خود اپنے لیے کیا بہتر ہے طے کریں‘؟
ڈان ڈاٹ کام نے اس تقریب میں مدعو 37 افغان شخصیات کی فہرست دیکھی ہے، ان میں سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے وزرا، گورنرز، قانون ساز اور خواتین کارکن شامل تھے جب کہ کچھ شخصیات ویزے کے مسائل کے باعث شریک نہیں ہو سکیں۔
منتظمین کے مطابق اس بروقت اور اہم مکالمے کا مقصد مختلف افغان رہنماؤں (مرد و خواتین) اور پاکستانی ہم منصبوں کے مابین جامع مکالمے کو فروغ دینا، باہمی فہم و تعاون کو آگے بڑھانا ہے۔
“ویمن فار افغانستان” (ڈبلیو ایف اے) اور ’ساؤتھ ایشین اسٹریٹیجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ‘ (ساسّی) یونیورسٹی نے مل کر یہ پہلا علاقائی مکالمہ ’یونٹی اینڈ ٹرسٹ کی جانب‘ کے عنوان سے منعقد کیا۔
ڈبلیو ایف اے کی سربراہ فوزیہ کوفی جو اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور طالبان کی پالیسیوں کے خلاف زیادہ تر خواتین کارکنوں پر مشتمل متعدد اجلاس منعقد کر چکی ہیں۔
دوسرے دن، 30 ستمبر کو، ایک مشترکہ پاک-افغان اجلاس ہو گا جس میں ’اعتماد سازی، مشترکہ نکات کی نشاندہی اور خطے کے مسائل کو عوامی نقطہ نظر سے حل کرنے کے لیے مباحثے‘ کیے جائیں گے۔
منتظمین نے اجلاس کے مقاصد واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد افغان اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔
مکالمہ پائیدار ترقی، استحکام اور امن کو بھی فروغ دے گا جو مشترکہ اقدار پر مبنی ہو اور خواتین کی شرکت اور جامع طرز حکمرانی کی اہمیت کو اجاگر کرے گا، یہ اجلاس علاقائی تعاون کو فروغ دے گا جس میں اقتصادی ترقی اور اعتماد سازی پر زور ہو گا۔
منتظمین کے مطابق یہ اجلاس دونوں ممالک کے عوام کے درمیان گہری سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں مدد دے گا تاکہ خطے میں زیادہ پائیدار ترقی اور امن قائم ہو۔
مزید کہا گیا کہ اس مکالمے اور اس عمل کی اہمیت اس ضرورت سے جڑی ہے کہ افغانوں کو یہ جگہ ملنی چاہیے کہ وہ خود بیٹھیں، بات کریں اور مل جل کر اپنے مشترکہ اقدار اور اپنے ملک و عوام کے مفادات کے لیے سوچیں اور آگے بڑھیں۔
یہ اجلاس افغان اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان تعاون کے مشترکہ نکات تلاش کرنے، عوامی بنیادوں پر علاقائی مسائل کا حل ڈھونڈنے اور اعتماد و استحکام قائم کرنے کے لیے معاون ثابت ہو گا۔
یاد رہے کہ جولائی میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں پاکستان، ازبکستان اور افغانستان ریلوے منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تاکہ علاقائی روابط کو فروغ دیا جا سکے۔
اسی ماہ کے آخر میں ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو افغان حکام سے یہ ’حال ہی میں یقین دہانی‘ موصول ہوئی ہے کہ ان کے ملک کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
اسلام آباد بارہا کابل سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرے۔
جنوری میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان واحد تنازعہ کی وجہ ٹی ٹی پی کی موجودگی اور سرحد پار حملے ہیں۔