جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی ذیلی کمیٹی کے ارکان نے کئی تجاویز آگے بھیجی ہیں، جن پر غور کیا جائے گا تاکہ ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی جانچنے اور ان کی ترقی کے لیے معیار وضع کرنے کے قواعد تیار کیے جا سکیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کے روز ہوا، جس میں اٹارنی جنرل پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے محمد احسن بھون، حکومتی بینچوں سے سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور اپوزیشن کی جانب سے سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر شریک ہوئے۔
ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہر رکن کی تجویز کو یکجا کر کے تمام اراکین کو آئندہ اجلاس کے لیے بھیجا جائے جو اگلے ہفتے ہوگا، اس اجلاس میں ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے پیمانے وضع کرنے کی تجاویز پر تفصیل سے غور کیا جائے گا۔
ایک تجویز یہ تھی کہ اس مدت پر غور کیا جائے جس کے اندر ہائی کورٹ کا جج محفوظ شدہ فیصلہ سناتا ہے، کیونکہ بلاوجہ تاخیر سے آخرکار سائلین کو مایوسی ہوتی ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا جائے کہ وہ 3 ماہ کے اندر فیصلے سنائیں، جیسا کہ 2015 میں ایم ایف ایم وائی انڈسٹریز لمیٹڈ کیس میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قرار دیا تھا۔
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ فیصلے سنانے کے لیے مناسب وقت 90 دن ہے، کیونکہ قانون کی تشریح کے لیے وسیع تحقیق، غور و فکر اور مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 90 دن فیصلہ لکھنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں، اگر جج اس مدت میں فیصلہ نہیں دے پاتے تو انہیں معقول وجوہات بیان کرنی ہوں گی اور ممکن ہے کہ مقدمے کو دوبارہ سننے کا حکم دیں۔
ایک اور تجویز یہ تھی کہ جے سی پی یہ جانچے کہ ایک جج ماہانہ کتنے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے، اور کیا یہ فیصلے ایسے موضوعی معاملات پر ہیں جو قانونی اصولوں کو آگے بڑھاتے ہیں یا صرف معمول کی ضمانت کی درخواستوں سے متعلق ہیں۔
تجاویز میں یہ بھی شامل تھا کہ دیکھا جائے آیا جج روزانہ کی کاز لسٹ پوری کرتے ہیں یا صرف چند مقدمات سنتے ہیں اور باقی مؤخر کر دیتے ہیں۔
البتہ یہ سوال برقرار ہے کہ معیارات میں ان مقدمات کو کیسے شامل کیا جائے، جو ججوں کی جانب سے دائرہ اختیار کی نشاندہی کے بعد واپس لے لیے جاتے ہیں۔
ایک قانونی ماہر نے کہا کہ ایسے انخلا عدالتی وقت بچاتے ہیں، کیونکہ غیر ضروری اپیلوں سے بچا لیا جاتا ہے، لیکن یہ کبھی قانون کی کتابوں میں درج نہیں ہوتے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی جج کو محض اس لیے سزا دی جانی چاہیے کہ اس نے مقدمہ اچھی طرح سمجھ کر فریق کو واپس لینے پر آمادہ کیا؟
مزید وضاحت کرتے ہوئے قانونی ماہر نے کہا کہ کارکردگی کو صرف روزانہ سنے گئے مقدمات کی تعداد سے نہیں ناپا جا سکتا، کیونکہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ چیف جسٹس کس نوعیت کے مقدمات تفویض کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر سول ریویژن کے مقدمات وقت طلب اور پیچیدہ ہوتے ہیں، جب کہ دیگر معاملات میں محکموں کو ہدایات دینا شامل ہو سکتا ہے، جو جلد نمٹا دیے جاتے ہیں، اس طرح مختلف نوعیت کے مقدمات سننے والے ججوں کا آپس میں موازنہ کرنا غیر منصفانہ ہوگا۔
19 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی نے ہائی کورٹ کے ججوں کی عدالتی کارکردگی کے جائزے کے لیے ایک وسیع البنیاد کمیٹی تشکیل دی تھی، یہ کمیٹی عدلیہ، پارلیمان، انتظامیہ اور وکلا برادری کے ارکان پر مشتمل ہے، اس کا کام سالانہ عدالتی کارکردگی کے جائزوں کے قواعد تیار کرنا اور ججوں کے تقرر کے معیار وضع کرنا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 175 اے کی 26ویں ترمیم کے تحت جے سی پی کم کارکردگی دکھانے والے ہائی کورٹ ججوں کو بہتری کا وقت دے سکتا ہے، اور اگر وہ ناکام ہوں تو ان کی برطرفی کی سفارش سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو کر سکتا ہے۔
اور جب دیے گئے عرصے کے بعد بھی جج کی کارکردگی غیر تسلی بخش پائی جائے تو کمیشن اپنی رپورٹ ایس جے سی کو بھیجے گا اور برطرفی کی سفارش کرے گا۔
مزید یہ کہ کمیشن ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا اور کارکردگی کے معیارات طے کرنے کے لیے قواعد بنا سکتا ہے۔

