طالبان کے سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بار بار کے انتباہات میں کہا گیا تھا کہ کابل کو اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران تجزیہ کار امتیاز گل سے گفتگو میں ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دھمکی آمیز لہجے والے بیانات کے بجائے بات چیت ہونی چاہیے، زیادہ دورے ہونے چاہئیں تاکہ دونوں طرف اعتماد پیدا ہو۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت موجودہ ماحول اور جاری پروپیگنڈے سے خوش نہیں ہے، کیونکہ یہ پاکستان اور افغانستان، دونوں کے مفاد میں نہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے حملے کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھر پاکستان کو ایسے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، اسلام آباد کو بھی کابل کے ساتھ معلومات شیئر کرنی چاہئیں تاکہ ہم بھی ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سیکیورٹی یقینی بنانی چاہیے اور اس بات کا اضافہ کیا کہ افغانستان کو پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
یاد رہے کہ افغانستان کی سرزمین پر موجود کالعدم تنظیموں کی جانب سے پاکستان میں فورسز، شہریوں اور ریاستی اداروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں، گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس حوالے سے شواہد بھی پیش کیے تھے۔
چین اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کی ذیلی دہشت گرد تنظیم مجید بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ امریکا ان دونوں تنظیموں کو پہلے ہی دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
دو روز قبل خبر سامنے آئی تھی کہ افغانستان کے صوبہ ہلمند میں سانحہ جعفر ایکسپریس کا ماسٹر مائنڈ گل رحمٰن عرف استاد مرید پراسرار طور پر ہلاک ہوگیا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں کے سرغنہ کی افغان سرزمین پر ہلاکت بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ پڑوسی ملک کی سرزمین ہمارے کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔