جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہوماہم خبریںپاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد لڑکیوں کی کم عمری...

پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا انکشاف: یونیسیف

اقوام متحدہ کا عالمی فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد لڑکیوں کی کم عمری میں شادیاں ہوئی ہیں، جن میں سے تقریباً ہر 6 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔

48 لاکھ لڑکیوں کی شادیاں 15 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئیں، جو اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ قومی سطح پر مربوط اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

آئینی تحفظات کے باوجود شادی کی قانونی عمر کے حوالے سے صوبوں میں عدم توازن موجود ہے، صرف سندھ اور اسلام آباد میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے جب کہ باقی صوبوں میں اس خلا کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں کم عمری میں گھریلو تشدد اور تعلیم سمیت دیگر محرومیوں سے دوچار ہیں۔

یہ انکشاف نیشنل سول سوسائٹی ڈائیلاگ اور ڈسیمنیشن ایونٹ کے دوران ہوا جو ’چائلڈ ارلی اینڈ فورسڈ میرج (سی ای ایف ایم) پروجیکٹ‘ کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔

اس تقریب کا انعقاد اسٹرینتھنگ پارٹیسپیٹری آرگنائزیشن (ایس پی او) نے امریکی محکمہ خارجہ اور سیو دی چلڈرن کے تعاون سے کیا، جس میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں، پارلیمنٹیرینز، بچوں کے تحفظ کے ماہرین، نوجوانوں کے نمائندوں اور سرکاری عہدیداروں نے شرکت کی۔

سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف پالیسیوں سے نہیں آتی، بلکہ یہ مستقل مزاجی، عزم اور حکومت، سول سوسائٹی اور مقامی شراکت داروں کی اجتماعی کوششوں کا تقاضا کرتی ہے۔

ایس پی او میں سی ای ایف ایم پروگرام کے منیجر جمیل اصغر بھٹی نے انکشاف کیا کہ سندھ اور بلوچستان میں کی گئی حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تقریباً 60 فیصد شرکا کی شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہوئیں۔

سینیٹر (ر) جاوید جبار نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکیوں کو بااختیار بنانے اور ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی خواتین رہنماؤں کی مثال دی کہ اگر ان کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی تو وہ کبھی ایسے سنگ میل حاصل نہ کر پاتیں۔

انہوں نے مزید زور دیا ’ہمیں غیر ملکی فنڈنگ کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے، بچوں کا تحفظ ہماری اپنی ذمہ داری ہے‘۔

ایس پی او کی چیف ایگزیکٹو محترمہ عارفہ مظہر نے زور دیا کہ اس مسئلے پر محض پروجیکٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک مستقل اور کمیونٹی پر مبنی تحریک کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک پروجیکٹ نہیں بلکہ ایک اجتماعی مشن ہے۔

انہوں نے شراکت داروں، نوجوان رہنماؤں اور سیو دی چلڈرن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اختتام نہیں بلکہ بچپن کی شادی کے خلاف جدوجہد کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے