اتوار, دسمبر 28, 2025
ہوماہم خبریںتاخیر سے دائر کی گئی درخواستوں پر ریلیف دینے سے انکار کیا...

تاخیر سے دائر کی گئی درخواستوں پر ریلیف دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ جو اپنے حقوق پر خاموشی اختیار کرلے اور بروقت قانونی چارہ جوئی نہ کرے، اسے تاخیر سے دائر کی گئی درخواست پر ریلیف دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔

یہ ریمارکس جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سندھ حکومت سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے۔

بینچ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور خودمختار اداروں کے اس رجحان پر تشویش ظاہر کی کہ وہ اکثر مقررہ قانونی مدت گزر جانے کے بعد اپیلیں دائر کرتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں افسوس ظاہر کیا گیا کہ اکثر حکومتوں کی طرف سے تاخیر کی معافی کے لیے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ بین الاداراتی کارروائیوں اور مجاز اتھارٹی سے حتمی ہدایات لینے میں وقت لگ گیا، جس کی وجہ سے بروقت مقدمہ دائر نہیں ہو سکا۔

بظاہر تاخیر کی معافی کے لیے درخواستیں معمول کے طور پر دائر کی جا رہی ہیں، اور یہ غفلت بھرا رویہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ تاخیر صرف اسی صورت میں معاف ہو سکتی ہے، جب اس کے لیے معقول وجہ بتائی جائے اور ہر دن کی تاخیر کی وضاحت کی جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے سامنے برابری کا اصول تقاضا کرتا ہے کہ تمام فریقین، بشمول ریاست کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے، اور قانون کو غیر جانب دارانہ طور پر نافذ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مدتِ معیاد کا قانون کوئی حق نہیں دیتا بلکہ اس کے بعد قانونی حق کے نفاذ کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور ایسے دعوے جنہیں وقت گزرنے سے زائل سمجھا جائے، وہ ختم ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت پر یہ بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مدتِ معیاد کے سوال پر غور کرے، خواہ یہ اعتراض اٹھایا گیا ہو یا نہ ہو، غفلت، دانستہ سستی یا بدنیتی تاخیر کی معافی کے لیے درست جواز نہیں ہو سکتے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ انتظامی تاخیر پر قائل نہ کرنے کا جواز اب ایک رجحان بن گیا ہے، جو عمومی اور روایتی درخواستوں کے ذریعے بار بار پیش کیا جاتا ہے، ہمارے نزدیک یہ طرزعمل ہر مقدمے میں ’معقول وجہ‘ یا مناسب بنیاد نہیں سمجھا جا سکتا۔

یہ معاملہ اس وقت اٹھا، جب سندھ حکومت کے لینڈ ایکوزیشن ڈپارٹمنٹ نے سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ کے 12 اپریل 2022 کے فیصلے کو چیلنج کیا، دراصل، محکمے نے 28 فروری 2002 کو ریفری کورٹ/ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سکھر کے ایک فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی کوشش کی، جو لینڈ ایکوزیشن ریفرنس/سول نمبر 13/1989 میں سنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ سول اپیل 30 دن کی مدت گزرنے کے بعد دائر کی گئی اور اپیل کے ساتھ منسلک تاخیر کی معافی کی درخواست میں کوئی خاص وجہ درج نہیں تھی، بلکہ صرف چند غیر متعلقہ اور عمومی بنیادیں بیان کی گئی تھیں۔

تاخیر کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔

عدالت نے زور دیا کہ مدتِ معیاد کا سوال معمولی یا غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا، جو بھی شخص یا ادارہ اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنا چاہتا ہے، اسے بروقت اور محنتی انداز میں دستیاب قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔

عدالت نے قرار دیا کہ اگر محکمے کی تاخیر غفلت یا لاپرواہی کے باعث ہے تو ایسے رویے پر تاخیر کی معافی دے کر کوئی انعام نہیں دیا جا سکتا، چنانچہ سپریم کورٹ نے سول اپیل کو میرٹ پر اور مدتِ معیاد ختم ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے