وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی نے قرار دیا ہے کہ ملازمین کی مسلسل سی سی ٹی وی نگرانی دفتر میں ہراسانی کے زمرے میں آتی ہے۔
وفاقی برائے انسداد ہراسانی فوزیہ وقار نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے راولپنڈی میں ایک نجی تعلیمی ادارے کے سربراہ پر سی سی ٹی وی کیمروں کے غلط استعمال اور خاتون افسر کو ہراساں کرنے پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ادارے کی ایک ماتحت ملازمہ نے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے خلاف شکایت درج کرائی تھی کہ انہیں حد سے زیادہ نگرانی اور خوف و ہراس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
شواہد کا جائزہ لینے کے بعد محتسب نے قرار دیا کہ ملزم نے غیر ضروری اور جانبدارانہ نگرانی کی، جس میں متاثرہ خاتون کو سی سی ٹی وی اسکرین شاٹس بھیجنا بھی شامل تھا، جس سے ایک خوف زدہ اور تکلیف دہ ماحول پیدا ہوا۔
محتسب نے اس رویے کو قانون کے تحت ہراسانی قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاتون کو 50 ہزار روپے بطور معاوضہ دینے اور سی ای او کے خلاف سرزنش کی سزا کا حکم دیا۔
اس کے ساتھ ہی دفتر میں اصلاحی اقدامات کی ہدایت بھی دی گئی، جن میں انکوائری کمیٹی کی تشکیل اور ضابطہ اخلاق کو انگریزی اور اردو میں نمایاں طور پر آویزاں کرنا شامل ہے۔
فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ہراسانی صرف ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی تک محدود نہیں بلکہ کام کی جگہ پر ایسا کوئی بھی طرز عمل جو وقار، نجی زندگی یا اعتماد کو مجروح کرے اور خوف و ہراس پیدا کرے، ہراسانی ہے۔
محتسب کے دفتر نے بیان میں کہا کہ ’یہ کیس یاد دہانی ہے کہ نگرانی کو ملازمین کو کنٹرول کرنے، نشانہ بنانے یا خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ نجی زندگی اور وقار بنیادی دفتری حقوق ہیں‘۔