بیجنگ سے مالی معاونت حاصل کرنے میں طویل تاخیر کے باعث اسٹریٹجک کان کنی منصوبے پر دباؤ پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا، ایسے میں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان کے ریلوے نظام کے ایک حصے کی اپ گریڈیشن کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان مذاکرات سے آگاہ 2 ذرائع نے بتایا کہ اے ڈی بی 2 ارب ڈالر مالیت کی اُس منصوبہ بندی کے سلسلے میں حتمی بات چیت کر رہا ہے، جس کے تحت 500 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کی جائے گی، یہ منصوبہ پہلے چینی پروجیکٹ کا حصہ تھا۔
مجوزہ ریلوے اپ گریڈیشن کے تحت کراچی (تجارتی دارالحکومت) سے روہڑی (سکھر کے قریب) تک کے پُلوں اور ٹریک کو جدید بنایا جائے گا، تاکہ ٹرینیں زیادہ تیز رفتاری سے چل سکیں۔
روہڑی میں یہ لائن ریکوڈک کان سے آنے والی شاخ سے جڑ جائے گی، جہاں سے تانبے کا خام مال بندرگاہ تک منتقل کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اپ گریڈیشن فوری ضرورت بن چکی ہے، کیونکہ یہ منصوبہ کینیڈا کی بیرک مائننگ کارپوریشن کی جانب سے تیار کیے جانے والے ریکوڈک تانبے کی کان سے پیداوار کی ترسیل کے لیے ناگزیر ہے۔
اسی ہفتے اے ڈی بی نے ریکوڈک منصوبے کے لیے 41 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت کا اعلان کیا تھا، اور اے ڈی بی کے صدر آئندہ ہفتے اسلام آباد کے دورے پر پہنچیں گے۔
ریکوڈک کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹِم کریب نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ حکومت اور بیرک مل کر مغرب سے روہڑی آنے والی شاخ کی اپ گریڈیشن کے لیے سرمایہ حاصل کرنے پر کام کریں گے۔
ریکوڈک کا تانبا اور سونا نکالنے کا منصوبہ 2028 میں پیداوار شروع کرے گا اور متوقع سالانہ پیداوار تقریباً 2 لاکھ میٹرک ٹن تانبے کے خام مال کی ہوگی۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر استعمال شدہ تانبے کی کانوں میں سے ایک ہے اور حالیہ برسوں میں پاکستان کی سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔
ایک سینیئر سرکاری اہلکار نے کہا کہ ہم بحران کا سامنا کریں گے، ریکوڈک سے پیداوار کو آپ کیسے منتقل کریں گے؟ یہ پرانی لائن مزید دباؤ برداشت نہیں کر سکے گی۔
پاکستان کی ریلوے وزارت یا چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اے ڈی بی نے اس مالی پیکیج کی تصدیق نہیں کی جس کی رپورٹنگ پہلی بار ’رائٹرز‘ نے کی ہے، تاہم، اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور علاقائی بینک ریلوے سیکٹر کی ترقی پر باقاعدہ بات چیت کرتے رہتے ہیں۔
اے ڈی بی نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ تعاون کا انحصار جامع جانچ پڑتال اور اے ڈی بی کی پالیسیوں و طریقۂ کار کے تحت غور کے بعد ہوگا، اس سے پہلے کوئی حتمی عہد نہیں کیا جا سکتا۔