سپریم کورٹ کے 2 سینئر ججز کے ساتھ ہونے والے مراسلہ جاتی تبادلے کے مندرجات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ سال ایک کمیٹی کے اس فیصلے کو نظر انداز کر دیا جس میں آئین کی 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے مقدمات کو فل کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسا کرنے سے ججز کے درمیان درکار باہمی ہم آہنگی کے جذبے کو نقصان پہنچے گا اور عدالت کو عوامی تبصروں کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوا ہے۔
یہ کمیٹی، جس کا اجلاس 31 اکتوبر 2024 کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ (پی پی اے) 2023 کے تحت ہوا، کی صدارت سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کی تھی۔
جواب میں کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انہیں فل کورٹ سماعت بلانا مناسب نہیں لگا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں دونوں سینئر ججز کے خطوط دوپہر دیر سے موصول ہوئے۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ انہیں مجبوراً کمیٹی کے فیصلے اور اپنا جواب مہر بند لفافوں میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے سیکریٹری کو محفوظ رکھنے کے لیے بھیجنا پڑا، تاکہ انہیں جے سی پی کے اجلاس میں پیش کیا جا سکے، جو 5 نومبر 2024 کو طلب کیا گیا تھا۔
اپنے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جے سی پی سے درخواست کریں گے کہ وہ آئینی بینچ میں ان کے ساتھ مزید جج مقرر کرے، تاکہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 191 اے (3 اے) کے تحت 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے پیش کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ پی پی اے کے تحت بینچ بنانے کے لیے کمیٹی طلب کرنا یا فل کورٹ تشکیل دینا، آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
چیف جسٹس نے جے سی پی کے سیکریٹری سے یہ بھی کہا کہ وہ ان کا جواب اور دونوں ججز کے خطوط آئندہ جے سی پی اجلاس میں پیش کریں تاکہ ان پر غور کیا جا سکے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین میں آرٹیکل 184 کے تحت درخواستوں کی سماعت کے لیے کسی بھی بینچ کے دائرہ اختیار سے متعلق مینڈیٹ بالکل واضح ہے، آرٹیکل 191اے کے تحت آرٹیکل 184 کے تحت دائر درخواستیں آئینی بینچ کے سامنے پیش کی جانی چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس نوعیت کی درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچوں کی تشکیل صرف آئینی بینچ کی تین رکنی کمیٹی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، نہ کہ پی پی اے کمیٹی کے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے تمام 13 ججز سے مشاورت کی جن میں سے 9 ججز نے اس بات سے اتفاق کیا کہ 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستیں فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے پیش کی جانی چاہئیں۔
20 مئی 2025 کے علیحدہ منٹس میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے موثر مشاورت کی ضرورت پر زور دیا، جسے انہوں نے پی پی اے کا بنیادی مقصد قرار دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اختیارات کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو منتقل کرنا اس ایکٹ میں شامل نہیں ہے۔
انہوں نے فوری نوعیت کے معاملات کے لیے ایک مستقل حل تلاش کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ اگر کسی رکن کی غیر موجودگی میں چیف جسٹس دستیاب نہ ہوں تو کمیٹی اجلاس میں اگلا سینئر جج شریک ہو۔
کمیٹی نے جسٹس منصور علی شاہ کی تجاویز پر غور کیا اور اختیارات کی عدم منتقلی والے مؤقف سے اتفاق کیا، لیکن باقی نکات سے اختلاف کیا، کمیٹی نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ وہ مسودے میں ترمیم کرے اور دوبارہ جمع کروائے۔
اسی دوران، جمعرات کو سپریم کورٹ نے باضابطہ طور پر سپریم کورٹ رولز 2025 شائع کر دیے، جو سپریم کورٹ رولز 1980 کی جگہ لیں گے۔
آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت مرتب کیے گئے نئے قواعد پرانے ضابطوں کی جگہ لیں گے اور عدالت کے طریقہ کار کو فوری طور پر ابھرنے والی قانونی، آئینی اور تکنیکی پیش رفت کے مطابق ہم آہنگ کریں گے۔
ان قواعد کی تیاری کے لیے چیف جسٹس نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل تھے۔
کمیٹی نے ججز، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بار ایسوسی ایشنز سے مشاورت کی، حتمی مسودہ فل کورٹ کے سامنے رکھا گیا اور تفصیلی غور و خوض کے بعد منظور کر لیا گیا۔
سپریم کورٹ رولز 2025 سات حصوں، 38 آرڈرز اور 6 شیڈولز پر مشتمل ہیں، جن میں تقریباً 280 دفعات میں ترمیم کی گئی ہے (جن میں سے 160 شیڈولز سے ہیں)، 60 نئی دفعات شامل کی گئی ہیں اور 5 پرانی دفعات حذف کر دی گئی ہیں۔
اہم نکات میں یہ شامل ہیں کہ تمام درخواستیں اور پیپر بکس الیکٹرانک طور پر جمع کرائے جائیں گے، جب کہ نوٹسز، احکامات اور مصدقہ نقول کا بھی ڈیجیٹل اجرا ہوگا، دلائل، سماعتیں اور حلف نامے ویڈیو لنک کے ذریعے دیے جا سکیں گے اور ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے عدالتی دستاویزات قبول نہیں کیے جائیں گے۔
قواعد میں کئی دہائیوں بعد پہلی بار عدالت کی فیسوں میں ترمیم کی گئی ہے، جن میں فوجداری درخواستوں کے لیے خصوصی دفعات، جیل سے جمع کرائی جانے والی درخواستوں کی فیس، اور ہیبیس کارپس (یہ قانونی اصطلاح لاطینی زبان سے نکلی ہے، یہ ایک آئینی یا قانونی حق ہے جو کسی بھی شخص کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر اسے غیر قانونی طور پر گرفتار یا حراست میں رکھا گیا ہو تو وہ عدالت سے رجوع کر سکے) و آرٹیکل 184(3) درخواستوں کے لیے فیس سے استثنا شامل ہے، وکلا کی فیس بھی بڑھا دی گئی ہے اور سزائے موت کے مقدمات میں رجسٹرار کو ریاستی خرچ پر وکیل مقرر کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 184(3) اور توہینِ عدالت کے مقدمات میں دیے گئے احکامات کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلز متعارف کرائی گئی ہیں اور ہر فیصلے کے خلاف صرف ایک نظرثانی درخواست کی اجازت ہوگی، غیر سنجیدہ نظرثانی درخواستوں پر جرمانہ ہوگا اور سیکیورٹی ڈپازٹ بڑھا دیا گیا ہے۔
عبوری احکامات کے خلاف اپیلیں کم از کم دو ججز پر مشتمل بینچ سنے گا، رجسٹرار کو یکطرفہ احکامات واپس لینے اور طریقہ کار پر عمل درآمد کرانے کا اختیار دیا گیا ہے۔
رجسٹرار کو عملے کی نگرانی اور طریقہ کار سے متعلق اختیارات تفویض کیے گئے ہیں، اور ضابطے کی خلاف ورزی سے کارروائی کالعدم نہیں ہوگی۔