مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے باجوڑ امن جرگہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان کے درمیان جاری مذاکرات کی حمایت کا اعلان کردیا، جس کا مقصد شدت پسندوں کو پُرامن طور پر ضلع چھوڑنے پر آمادہ کرنا ہے۔
مطابق یہ اعلان خار میں مدرسہ انوارالعلوم میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کیا گیا، جس کی صدارت اتحاد علما باجوڑ کے سربراہ مفتی احسان الحق نے کی، ’اتحاد علما باجوڑ‘ مقامی علما کی ایک تنظیم ہے۔
اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، وفاق المدارس العربیہ، تبلیغی جماعت اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی، جو باجوڑ میں امن کے مسئلے پر مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نایاب مشترکہ اجلاس تھا۔
مقررین نے اس اجلاس کے مقصد اور امن کے فروغ میں علما کے اہم کردار پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ علما کو معاشرے میں ان کی مذہبی تعلیمات کے سبب احترام حاصل ہے اور وہ مؤثر اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
آل باجوڑ اسلامک مدارس مہتممین ایسوسی ایشن کے صدر مفتی احسان الحق نے کہا کہ علما ہمیشہ ضلع کو درپیش مسائل کے وقت اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم معاشرے کا حصہ ہیں، اور امن جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کا تعلق براہ راست عوام کی زندگی سے ہے‘۔
اجلاس کے شرکا نے باجوڑ امن جرگہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ علما پرامن حل کے لیے یکجا اور پُرعزم ہیں۔
مفتی احسان الحق نے مذاکرات کو مؤثر بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا، جو جرگے سے ملاقات کرے گی اور مذاکراتی عمل میں تعاون فراہم کرے گی۔
دریں اثنا، منگل کے روز باجوڑ امن جرگہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ایک روزہ تعطل کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے، جرگہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان چوتھا دور لوئی ماموند میں ہوا، جس میں پچاس رکنی جرگہ شریک تھا۔
جرگہ کے سربراہ صاحبزادہ ہارون رشید کے مطابق یہ اجلاس اس ملاقات کے ایک دن بعد منعقد ہوا، جس میں جرگہ کے ارکان نے پشاور میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ملاقات کی تھی۔
منگل کی شام ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صاحبزادہ ہارون رشید نے کہا کہ بات چیت کی تفصیلات اس وقت جاری کی جائیں گی جب دونوں فریق باہمی اتفاق رائے تک پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے مقامی میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ مذاکراتی عمل پر قیاس آرائیاں کرنے سے گریز کرے، کیونکہ اس سے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔