اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے مقررہ تاریخ سے قبل ہی افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل شروع کر دیا ہے، جس سے ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو پاکستان سے نکالا جا سکتا ہے۔
یہ اقدام وزارت داخلہ کے 31 جولائی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پی او آر کارڈ ہولڈرز، جو کہ پاکستان میں بغیر ویزا قانونی طور پر مقیم آخری افغان باشندے تھے، 30 جون کو کارڈز کی مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی رہائشی تصور کیے جائیں گے۔
تاہم وفاقی حکومت نے صوبوں کو مطلع کر دیا ہے کہ 13 لاکھ سے زائد پی او آر کارڈ ہولڈرز افغان مہاجرین کی باضابطہ واپسی اور ملک بدری کا عمل یکم ستمبر سے شروع کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ اسے ملک بھر میں قانونی طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی گرفتاریوں اور ملک بدری کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، حالانکہ اُن کے انخلا کی آخری تاریخ ابھی نہیں آئی۔
یو این ایچ سی آر نے کہا کہ افغانوں کو اس طرح زبردستی واپس بھیجنا پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
ادارے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یو این ایچ سی آر حکومت پاکستان سے زبردستی ملک بدری بند کرنے اور افغانوں کی واپسی کو رضاکارانہ، تدریجی اور باوقار بنانے کے لیے ایک انسان دوست طرز عمل اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے‘۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کو دستیاب وزارت داخلہ کے ایک حکم نامے کے مطابق قانونی افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی فوراً شروع کی جائے گی جبکہ ملک بدری کا باضابطہ عمل یکم ستمبر کے بعد شروع ہو گا۔
تاہم یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے بدھ کو رائٹرز کو بتایا کہ یکم اگست سے 4 اگست کے درمیان درجنوں قانونی افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے افغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اس وقت 13 لاکھ سے زائد افغان شہری پی او آر کارڈ کے حامل ہیں جبکہ مزید 7 لاکھ 50 ہزار کے پاس افغان سٹیزن کارڈ کے نام سے ایک اور رجسٹریشن دستاویز موجود ہے۔
کئی افغان شہری 1980 کی دہائی سے پاکستان میں آباد ہیں تاکہ افغانستان میں جاری جنگوں سے بچ سکیں۔
یو این ایچ سی آر نے خبردار کیا ہے کہ ’اس قدر بڑی اور عجلت میں کی گئی واپسی نہ صرف افغان مہاجرین کی جانوں اور آزادی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے بلکہ یہ افغانستان اور پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے‘۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُن افغان شہریوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دیں گے جن کے پاس درست ویزے موجود ہوں۔
یہ انخلا ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘کے تحت کیا جا رہا ہے، جو 2023 کے اواخر میں شروع کیا گیا تھا۔
ماضی میں پاکستانی حکام نے بعض دہشت گرد حملوں اور جرائم کا الزام افغان شہریوں پر عائد کیا تھا، جو ملک میں سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہیں، افغانستان ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے اور واپسی کے عمل کو ’زبردستی کی ملک بدری‘ قرار دیتا ہے۔
پاکستان کے علاوہ، ایران سے بھی افغان شہریوں کی ایک نئی بڑی تعداد کی ملک بدری جاری ہے، جس پر امدادی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ صورتحال افغانستان کو مزید عدم استحکام کا شکار بنا سکتی ہے۔