اقوامِ متحدہ کی عالمی عدالت نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر ممالک ایک دوسرے کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔
، اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک تاریخی فیصلے میں راستہ ہموار کر دیا ہے کہ اب ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں، بشمول کرۂ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کے تاریخی اخراجات پر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات دائر کر سکتے ہیں۔
تاہم، بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے جج نے تسلیم کیا ہے کہ یہ طے کرنا کہ کس ملک نے ماحولیاتی تبدیلی کا کون سا حصہ پیدا کیا، ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔
یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر پابند نہیں، لیکن ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں، عدالت نے ماحولیاتی تبدیلی کو ایک فوری اور وجودی خطرہ قرار دیا۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف (جسے عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے) کی اس غیر پابند رائے سے دنیا بھر میں آئندہ ماحولیاتی اقدامات کی سمت متعین ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں عدالت نے ممالک کی قانونی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی رائے دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی عدالت کی یہ رائے اب دوسرے ممالک کو ماحولیاتی مسائل جیسے آلودگی یا گیسوں کے اخراج پر جواب دہ ٹھہرانے میں مدد دے سکتی ہے۔
جج یوجی ایواساوا نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی بلا شبہ وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جو کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہیں۔
عدالتی فیصلے سے قبل ماحولیاتی انصاف کے حامی دی ہیگ میں عالمی عدالت کے باہر جمع ہوئے اور نعرے لگاتے رہے کہ ہمیں کیا چاہیے؟ ماحولیاتی انصاف! کب چاہیے؟ ابھی!
ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ دی ہیگ میں عالمی عدالت کے 15 ججوں کی مشاورت قانونی اور سیاسی اہمیت رکھتی ہے اور آئندہ ماحولیاتی مقدمات اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکیں گے۔
سینٹر فار انٹرنیشنل انوائرنمنٹل لا کی سینئر وکیل، جوئے چوہدری نے کہ کہ یہ فیصلہ انتہائی اہم ہے، یہ ہمارے دور کا سب سے اثر انگیز قانونی فیصلہ بن سکتا ہے، کیونکہ یہ ماحولیاتی انصاف کے مرکز سے جڑے معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عدالت سے دو سوالات پر رائے مانگی تھی کہ پہلا، ممالک کی بین الاقوامی قانون کے تحت کیا ذمہ داریاں ہیں کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں سے ماحولیاتی نظام کو بچائیں؟ دوسرا اگر کوئی ملک ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس کے کیا قانونی نتائج نکلتے ہیں؟
گزشتہ سال دسمبر میں عدالت میں دو ہفتے کی سماعت کے دوران ترقی یافتہ ممالک نے مؤقف اپنایا کہ موجودہ ماحولیاتی معاہدے، جیسے کہ 2015 کا پیرس معاہدہ، جو عمومی طور پر غیر پابند ہیں، انہی کو بنیاد بنا کر ذمہ داریاں طے کی جائیں۔
جب کہ ترقی پذیر ممالک اور چھوٹے جزیرہ نما ریاستوں نے زیادہ سخت اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ گیسوں کے اخراج پر قابو پایا جا سکے اور بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک مالی امداد فراہم کریں۔
پیرس معاہدہ
2015 میں اقوامِ متحدہ کے تحت پیرس میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر 190 سے زائد ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
تاہم، یہ معاہدہ اب تک عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ روکنے میں ناکام رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ ’ایمیشن گیپ رپورٹ‘ کے مطابق، اگر موجودہ ماحولیاتی پالیسیاں اسی طرح برقرار رہیں تو سنہ 2100 تک عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں 3 ڈگری سیلسیس سے زیادہ بڑھ جائے گا۔
ایک نیا موڑ
ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کی یہ رائے ایک نیا موڑ ثابت ہونی چاہیے، چاہے یہ فیصلہ صرف مشاورتی نوعیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔
ماحولیاتی انصاف کے لیے سرگرم کارکن اب حکومتوں اور کمپنیوں کو عدالت میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس نوعیت کے مقدمات میں تیزی آئی ہے۔
جون کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے 60 ممالک میں 3 ہزار سے زائد ماحولیاتی مقدمات دائر ہو چکے ہیں۔
وشال پرساد، جو جنوبی بحرالکاہل میں واقع ملک وانواتو کی حکومت کو یہ معاملہ عدالت میں لانے پر آمادہ کرنے والے قانون کے طالب علموں میں شامل تھے، انہوں نے کہا کہ عدالت یہ بات تسلیم کر سکتی ہے کہ ماحولیاتی اقدامات میں کوتاہی، خاص طور پر بڑے آلودگی پھیلانے والوں کی جانب سے صرف پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔