پیر, اگست 4, 2025
ہوماہم خبریںعالمی یومِ آبادی: ’اب وقت آچکا ہے کہ حکومت بڑھتی آبادی پر...

عالمی یومِ آبادی: ’اب وقت آچکا ہے کہ حکومت بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لیے واضح مؤقف اختیار کرے‘

ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی شرحِ آبادی کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایک دہائی سے زائد عرصے سے خاموشی اختیار کی لیکن آخرکار کچھ سرکردہ عوامی شخصیات مسئلے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

اپنی بجٹ تقریر میں وزیر صحت نے دعویٰ کیا کہ آبادی میں اضافہ صحت سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ وزیرِ خزانہ نے بار بار موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں تیزی سے اضافے کو پاکستان کو درپیش دو وجودی خطرات کے طور پر بیان کیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے ریمارکس دیے کہ ہم بریک لگانے کے بجائے آبادی کے اضافے میں مزید تیزی لے کر آئے ہیں۔

پارلیمانی فورم آن پاپولیشن جوکہ ایک کراس پارٹی اقدام ہے، نے آبادی میں تیزی سے اضافے اور دستیاب وسائل کے درمیان توازن بحال کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنے کے خیال کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ اگرچہ میڈیا سیاست میں مصروف ہے لیکن اب خاص طور پر پرائم ٹائم ٹاک شوز میں وہ آبادی کے مسائل پر بات کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کی تنقید کا خوف اب کم ہوچکا ہے، اس لیے اب اس مسئلے پر زیادہ کھل کر بات ہورہی ہے جسے پہلے زیرِبحث نہیں لایا جاتا تھا۔

ایک اور اہم پالیسی اعلان وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے بہبود آبادی اور صحت کے محکموں کو ضم کرنے کی منظوری تھی۔ اس انضمام کا مقصد کام کی اوور لیپنگ کو کم کرکے چیزوں کو مزید مؤثر بنا کر خدمات کو بہتر بنانا ہے۔ سندھ میں پہلے ہی ایک بہت قابل وزیر موجود ہیں جو آبادی کی بہبود اور صحت کے دونوں محکموں کو کامیابی سے چلا رہی ہیں۔

کیا وہ وقت آچکا ہے جس کا ہمیں انتظار تھا؟ کیا یہ وقت باقی ترقی پذیر دنیا کے مقابلے میں بہت دیر سے آیا ہے جو ہمیں کئی دہائیوں پیچھے چھوڑ چکا ہے؟ کیا اب ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے؟ تینوں سوالات کا جواب ہاں ہے۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد کی جانب سے تشویش صرف اسی صورت میں معنی خیز ثابت ہوگی کہ جب وہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات بھی کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کو کم کرنا کسی پالیسی کی مانند نہیں کہ جسے نافذ کیا جاسکے جبکہ یہ آبادی کو قابو میں کرنے کے حوالے سے تو ہرگز نہیں۔ یہ پاکستان کے لوگوں کو ان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کے لیے ہے جبکہ اس بارے میں ہرگز نہیں کہ لوگوں کے اپنے خاندان کے سائز کا فیصلہ کرنے کے بنیادی حق میں ریاست مداخلت کرے۔ آبادی میں اضافے کو کم کرنے کی پالیسیز صرف اس صورت میں کام کریں گی کہ جب لوگوں کے پاس صحیح معلومات ہوں اور انہیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے مکمل طور پر توثیق شدہ ’توازن‘ کا نیا بیانیہ موجودہ اور مستقبل کے شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے کم ہوتے وسائل اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے درمیان توازن بحال کرنے پر زور دیتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرے جبکہ غیر منصوبہ بند حمل سے لاحق صحت کے خطرات سے بچنے میں ریاست کو خواتین کی مدد کرنی چاہیے جبکہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے کہ نوزائیدہ بچے زندہ رہیں۔

ہمیں انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے اپنی آبادی کو کامیابی سے منظم کیا اور دہائیوں قبل ترقی کی شرح کو کم کرنے کے لیے انسانی ترقی کے اہداف کو برقرار رکھا۔ وہ دہائیوں پہلے رضاکارانہ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات اور عوامی بیداری کی مہمات میں سرمایہ کاری کرکے صحت مند اور آنے والی زیادہ تعلیم یافتہ نسلوں کی تخلیق کے لیے آبادی کی منصوبہ بندی کو بروئےکار لے کر آئے۔

18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کے لیے حقائق بدل چکے ہیں، پھر بھی ہماری ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے حوالے سے ہمارے مؤقف پر قومی اتفاق رائے نہ ہونا ہے۔ اس بارے میں کبھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا یہ پاکستان کے حال اور مستقبل کی بہتری کے لیے مثبت عنصر ہے یا منفی۔ وزیراعظم کو عوامی سطح پر حکومتی مؤقف کا اعلان کرنا چاہیے۔ صوبوں کے اختیارات میں مداخلت کے بغیر وفاق کو مضبوط کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایک اچھا قدم یہ ہوگا کہ ایک ’پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ کمیشن‘ بنایا جائے جس کی قیادت وزیر اعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کریں۔ یہ گروپ پالیسیز ترتیب دے سکتا ہے اور فنڈنگ کو یقینی بنا سکتا ہے، بالخصوص ان صوبوں اور علاقوں کے لیے جن کے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں۔

غریب خاندانوں کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی کو ممکن بنانے کی بنیادی ذمہ داری صوبے پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں غیر منصوبہ بند حمل کا سامنا کرنے والے لاکھوں افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔

2023ء کے پاپولیشن کونسل کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں 46 فیصد حمل کی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی یا ان کی ٹائمنگ غلط ہوتی ہے۔ اس تناسب میں 2012ء سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر گزشتہ دہائی کے دوران خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی کو بڑھایا جاتا تو ایسی لاکھوں پیدائشوں کو روکا جا سکتا تھا جو خاندانی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئیں۔

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے سماجی معاونت کے پروگرامز غریب خاندانوں کی مدد کرنے میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں خدمات تک رسائی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ یہ طریقہ پنجاب میں کارگر ثابت ہوا ہے اور اسے غریب علاقوں میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ کم آمدنی والے خاندانوں کی مدد کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کو ان امدادی پروگرامز کے حصے کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔

عجیب بات ہے کہ سندھ میں ممتا اور پنجاب میں آغوش جیسے پروگرام صرف حمل کے دوران دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جبکہ یہ کم عمر خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے مشورے اور خدمات پیش کرنے کے اہم موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔

آبادی کا مسئلہ ایسا نہیں جسے دیگر عوامل کو نظرانداز کرکے حل کیا جاسکتا ہو۔ خواتین کو بااختیار بنانا ضروری ہے جبکہ یہ انتہائی اہم ہے کہ خاندان جتنے بچے چاہتے ہیں، ان کی منصوبہ بندی میں ریاست ان کی مدد کرے۔ کوئی بھی ملک سماجی یا معاشی شعبوں میں حقیقی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کے ساتھ مساوی سلوک نہ کیا جائے۔

خواتین کو اپنے بچوں اور اپنی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ آج زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے پاس یہ طاقت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ان میں سے بہت سے لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن بہت کم کو یہ مواقع مل پاتے ہیں۔

پاکستان میں صرف 24 فیصد خواتین افرادی قوت کا حصہ ہیں اور اس شرح میں سالوں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ خواتین کو ملازمت دینے والے آجروں کو انعامات کی پیشکش اور خواتین کے لیے مخصوص ملازمت کے کوٹے مقرر کرکے اسے تبدیل کیا جائے۔ یہاں تک کہ چھوٹے علامتی اقدامات جو یہ ظاہر کریں کہ خواتین کو ترجیح بنایا جارہا ہے، عوامی پالیسی میں تبدیلی کی جانب اشارہ کریں گے۔

ہم تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔پاکستان میں اسکولز میں داخلے کی شرح میں بہتری تو آئی نہیں البتہ یہ بدتر ضرور ہوتی جارہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ صحت کے اہم اشارے جیسے شیرخوار بچوں کی اموات کی شرح اس بات سے گہرا تعلق رکھتی ہے کہ مائیں کتنی تعلیم یافتہ ہیں۔ چونکہ لڑکیوں کی تعلیم میں زیادہ بہتری نہیں آئی ہے، اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ صحت کے یہ اشارے پچھلے 10 سالوں میں بہتر نہیں ہوئے ہیں۔

اہم فیصلہ ساز اب دیکھتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈز میں آبادی کے حجم کو 82 فیصد حصہ دینے سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس نے سیاسی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ مردم شماری میں زیادہ آبادی دکھائیں تاکہ زیادہ رقم اور اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکیں۔ این ایف سی فارمولے کے اس حصے کو درست کرنا ضروری ہے۔

تاہم فارمولا درست کرنے سے ضروری نہیں کہ بہتر خدمات غریب ترین لوگوں تک پہنچیں گی۔ ہمیں وسائل کی تقسیم کے لیے مؤثر طریقوں کی ضرورت ہے جو صوبوں کو نوزائیدہ اور زچگی کے دوران اموات کو کم کرنے اور اچھے معیار کی رضاکارانہ خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے شرح پیدائش کو کم کرنے پر زیادہ رقم خرچ کرنے کی ترغیب دیں۔

ہمیں فوری طور پر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہماری اولین ترجیح لوگوں کے بنیادی حقوق اور خواہشات کی تکمیل ہونی چاہیے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے