کوئٹہ:نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ قومی زبانوں کے شعبے بند کرنا قومی شناخت پر حملہ ہے، فیصلہ فوری واپس لیا جائے حکومت زبانوں کو قتل کر رہی ہے، یونیورسٹیاں کاروبار نہیں علم و شعور کا مرکز ہوتی ہیں آج ہماری مادری زبانوں کو تعلیمی اداروں سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے حکومت نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بلوچی اور پشتو کے ڈیپارٹمنٹس بند کرنے اور انہیں ضم کرنے کا حکم دیا ہے نیشنل پارٹی ہر سطح پر اپنی زبانوں اور قومی شناخت کے تحفظ کے لیے جمہوری انداز میں مزاحمت کرے گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر روکن اسمبلی کلثوم پروین، اسلم بلوچ ،غلام جان بلوچ ، چنگیز ایڈوکیٹ اور دیگربھی عمراہ تھے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی اور پشتو زبانوں کے شعبے بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو بلوچ و پشتون اقوام کے ساتھ سنگین ناانصافی اور قومی شناخت کے خلاف گہری سازش قرار دیا ہے۔ انہوں نے گورنر بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیں پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے جس میں بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی، سرائیکی اور دیگر اقوام اپنی اپنی زبان، ثقافت اور روایات کے ساتھ رہتے ہیں
، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج ہماری مادری زبانوں کو تعلیمی اداروں سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بلوچی اور پشتو کے ڈیپارٹمنٹس بند کرنے اور انہیں ضم کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ منطق دینا کہ ان ڈیپارٹمنٹس میں طلبہ کی تعداد کم ہے، ایک بودی دلیل ہے۔ اگر یہی منطق ہو تو پھر ملک کی آدھی یونیورسٹیاں بند کرنا پڑیں گی۔ یونیورسٹیاں کاروباری ادارے نہیں بلکہ انسانی سرمائے کی تیاری کا مرکز ہوتی ہیں۔سربراہ نیشنل پارٹی نے موجودہ فیس اسٹرکچر کو بھی ظالمانہ قرار دیا اور کہا کہ آج ایک پروفیسر کی تنخواہ 80 سے 90 ہزار روپے ہے، جبکہ الانسز بھی کاٹے جا چکے ہیں، اور ساتھ ہی طلبہ پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کر ان کی تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2013 میں ان کی حکومت نے پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کا قانون پاس کیا تھا تاکہ بچوں کو اپنی زبان، شناخت اور ثقافت سے جوڑا جائے، مگر آج یونیورسٹی سطح پر زبانوں کے مضامین کو ختم کیا جا رہا ہے، جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے زور دیا کہ نیشنل پارٹی ہر سطح پر اپنی زبانوں اور قومی شناخت کے تحفظ کے لیے جمہوری انداز میں مزاحمت کرے گی اور کسی صورت بلوچی و پشتو شعبوں کو بند نہیں ہونے دے گی۔میڈیکل کالج کی سست روی اور مبینہ کرپشن پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کے فنڈز دیے گئے مگر زمین پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، اور اگر حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی تو ایک اور ادارہ تباہی کی جانب جائے گا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ زبانوں کے تحفظ، معیاری تعلیم کی فراہمی، اور تعلیمی اداروں کے لیے مختص فنڈز کو شفاف انداز میں استعمال کرے تاکہ بلوچستان کے طلبہ کو ان کا تعلیمی حق مل سکے۔