منگل, جون 24, 2025
ہوماہم خبریںبلوچستان کی خبریںملک کو حقیقی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے پاور سیکٹر...

ملک کو حقیقی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے پاور سیکٹر پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی، سینیٹر محمد عبدالقادر

کوئٹہ: چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک جس کا بجٹ روز اول سے ہی چھ سات ہزار ارب روپے خسارے یا قرضے سے شروع ہو رہا ہو اس میں ویل فیر بجٹ یا غریب پرور بجٹ یا فلاحی بجٹ لانا کیسے ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں بطور قوم اپنے معزز ایوانوں سے اور ارباب اختیار سے پوچھنا ہے۔ ہمارا بجٹ دو طرح کے محصولات پر مشتمل ہوتا ہے ایک اس کے ٹیکس ریونیوز ہیں جبکہ دوسرے نان ٹیکس ریونیوز ہیں۔ ٹیکس ریونیوز جو ایف بی آر جمع کرتا ہے وہ 14 ہزار 130 ارب روپے ہیں جنہیں اس سال ہم اکٹھا کریں گے اور نان ٹیکس ریونیوز ہم پیٹرولیم لیوی میں, اسٹیٹ بینک میں اور فیسوں میں اکٹھے کریں گے. یہ پانچ ہزار 150 ارب روپے کے قریب ہے۔ یعنی یہ دونوں ملا کر فیڈرل گورنمنٹ کی 19 ہزار 300 ارب روپے کے لگ بھگ انکم ہوگی۔ ہماری جو ڈیٹ سرونگ ہے اس میں ہم اس سال 8200 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں جو ہم نے صوبوں کو ڈیویزیبل پول میں دینا ہے وہ آٹھ ہزار دو سو ارب روپے ہے۔
اس طرح یہ کل رقم 16 ہزار 400 ارب روپے بنتی ہے جبکہ ڈیفنس سروسز کے لیے ہم نے 2550 ارب روپے رکھا ہے۔ یوں 19 ہزار ارب روپے ختم ہو جاتے ہیں۔یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پورے سال کے ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے ہمیں قرضہ لینا ہے. پنشنز کیلئے ایک ہزار ارب روپے درکار ہیں۔ ہم نے اپنے پی ایس ڈی پی کے پراجیکٹس کو چلانا ہے۔ ہم نے اپنی نیٹ لینڈنگ اور ڈویلپمنٹ کی اس میں سے پروویڑن رکھنی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی پروویڑن رکھنی ہے۔ سب کچھ ہم نے قرضے سے کرنا ہے۔ اور جو آٹھ ہزار دو سو ارب روپے ہم قرضے کی مد میں دے رہے ہیں وہ ہم اصل رقم میں نہیں دے رہے بلکہ ہم ڈیٹ سرونگ دے رہے ہیں اور پچھلے تیس سال سے ہر حکومت نے آ کے قرضہ لیا ہے کسی حکومت نے قرضہ واپس نہیں کیا۔ ہر حکومت صرف اور صرف اس کی ڈیٹ سرونگ رکھتی ہے۔ اس سال ہماری ٹوٹل کمائی کا 35 سے 40 فیصد صرف سود کی ادائیگی میں جا رہا ہے. گزشتہ برس ہم نے پورے سال کی کمائی کا 55 فیصد صرف سود کی مد میں ادا کیا ہے۔ اب تک پاکستان مارچ 2025 تک 76 ہزار ارب روپے قرض لے چکا ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے بجٹ میں اور ہماری معاشی پالیسی میں ہم نے پرنسپل ڈیٹ کو کس طرح ریٹائر کرنا ہے۔
ہم نے اپنے آپ کو کس طرح اس ایڈ ہاک ایزم والے بجٹ یا ایڈ ہاک ازم والی پالیسیوں سے اپنے آپ کو نکالنا ہے. ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے پچھلے تیس سالوں میں درآمدات اور برآمدات کے فرق کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ آج ہماری درآمدات ہماری برآمدات سے سو فیصد زیادہ ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ سو فیصد کے قریب ہوتا اگر ہمارے اوورسیز پاکستانی ریمیٹینسز نہ بھیجتے تو ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کبھی بھی پورا نہ ہوتا۔ ہماری برآمدات نہیں بڑھ سکیں کیونکہ ہماری حکومتوں نے پچھلے تیس سال میں ہمارے تمام بینکس سے قرض لئے. بینک بھی حکومتوں کو محفوظ اور قابل بھروسہ کلائنٹ سمجھتے ہوئے قرض دے دیتے ہیں. بنک نجی شعبے کو قرض نہیں دیتے اور زراعت, چھوٹی اور بڑی صنعت کے شعبوں میں قرض نہیں دیتے. بنکوں نے صرف حکومتوں کو ہی قرض دیا اور حکومت سے سود لے کے اپنے بینکوں کے لئے سپر پرافٹس لیے اس ایک چیز کے ساتھ ہماری کئی چیزیں جڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے ملک میں بینکوں پر ایڈوانسز ٹو ڈیٹ رییشو کا قانون نافذ تھا یعنی اپنے ڈیپازٹس کا 50 پرسنٹ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر کو لون کرنا تھا۔ پچھلے سال پہلی بار ایف بی آر اور فنانس ڈویڑن نے ان پہ تھوڑا زور ڈالا تو انہوں نے یہ قانون ہی چینج کرا دیا ہے۔ اگر ہماری ایکونومی میں وقت پہ انڈسٹری کو فنڈنگ کی جاتی تو ہماری برآمدات بڑھتیں اور یوں ہمارے ملک میں ڈالر کی پرائس اس قدر نہ بڑھتی اور روپے کی قدر اتنی نہ گرتی.انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں جب بھی امپورٹ کا سائیکل تھوڑا سا اوپر جانا شروع ہوتا ہے اور جب بھی ہماری جی ڈی پی بہتر ہونا شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہماری فارن کرنسی پہ بہت زیادہ پریشر آتا ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے ہماری انرجی کی قیمتیں چڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہماری انرجی کی قیمتیں چڑھنے سے ہماری پیداواری لاگت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہماری فارن ریزرو ڈیپلیٹ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس امپورٹ کور ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایکانومی کی بووم اینڈ بسٹ کا ایک سائیکل ہے۔ ہماری امپورٹ اورینٹڈ ایکونومی ہے۔ جب تک ہم اپنی برآمدات کو درآمدات کے قریب نہیں لائیں گے اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پلان نہیں کریں گے ہم مسائل میں پھنسے رہیں گے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار نے مزید کہا ہے کہ 2021 -22 میں ہماری ایکونومی 348 ارب ڈالر جبکہ 2022 میں 374 ارب ڈالر تھی لیکن آج ہماری ایکونومی 2021 کے پانچ سال بعد 357 ارب ڈالر کی ہے یعنی پانچ سال میں ہم ساڑھے تین سو ارب ڈالر کی بریٹ سے باہر نہیں نکلے۔ ایران پر دہائیوں سے پابندیاں عائد ہیں۔ 2021 میں ایران کی ایکونومی 383 ارب ڈالر جبکہ 2025 میں 432 ارب ڈالر ہے. ایران نے اپنی اکانومی پچاس ارب ڈالر بڑھائی ہے۔ بھارت کی 2021 میں ایکونومی 3000 ارب ڈالر تھی جو 2025 میں 4100 ارب ڈالر ہے۔ ہم کس وجہ سے یوں اپنی جی ڈی پی نہیں بڑھا سکتے؟ ہماری 2022 کی امپورٹس ہیں 84 ارب ڈالر کی ہیں۔ لیکن ہماری 2025 کی امپورٹ ہے 54 ارب ڈالر کی ہے۔ ہم 30 ارب ڈالر نیچے آ? کیونکہ ہمارے پاس امپورٹ کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ ہماری ایکسپورٹس اس کو سپورٹ نہیں کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے آپ کو یہ بیڈ شیٹ,ٹیکسٹائل, لیڈر گڈز اور سرجیکل ایکوپمنٹ سے بھی نکالنا ہوگا۔ ہماری آئی ٹی نے بہت اچھا پرفارم کیا ہے لیکن ہماری حکومت کو بڑے اہداف حاصل کرنے ہوں گے. پاور سیکٹر پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے آئی پی پیز اتنے پاور فل ہیں کہ وہ حکومتوں کو دباو میں لے آتے ہیں یہ عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ان آئی پی پیز کو نکیل ڈالنا ہو گی.

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے