لندن:چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا ہیکہ پاکستان کا موقف سچ پر مبنی اور بہت تگڑا ہے، پہلگام واقعے کے بارے میں امریکہ میں موجود بھارت کے حامیوں نے بھی تسلیم کیا کہ بھارت نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے، دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو امریکہ میں مانا جاتا ہے، بھارت نے پاکستان کا پانی بندکرنے کی کوشش کی تو جنگی اقدام تصور ہوگا، جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قیام امن کے لیے امریکا کی ہر کوشش کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور نیویارک پوسٹ کو دئیے گئے انٹرویو ز میں کیا۔بی بی سی سے گفتگوکرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں، ممکنہ جوہری تنازع کے پس منظر میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ہم جس سے بھی مل رہے ہیں وہ نہ صرف ہمارے موقف کو سن رہا ہے بلکہ اس کو سراہ بھی رہا ہے اور مدد کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کا سارا عمل مکمل کیا، امریکہ اس عمل کا حصہ ہے۔ انھوں نے انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے ان تمام گروپس کے خلاف ایکشن لیا، جب میں وزیر خارجہ تھا تو ہمارے ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے تو پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آ گیا۔انھوں نے کہا کہ اس عمل میں شامل تمام ممالک پاکستان کے ان گروپس کے خلاف اقدامات کے بارے میں پر اعتماد ہیں۔بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بات ہے تو یہ ایک پوائنٹ ہے جو مسلسل اٹھایا جاتا ہے۔
تاہم بلاول نے کہا کہ ان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ کانگریس کے رکن نے اس کا ذکرکیا۔ امریکی رکن کانگریس بریڈ شرمین کے سوشل میڈیا پر بیانات کے حوالے سے سوال پر بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ امریکی رکن کانگریس نے ان سے ملاقات میں جیش محمد اور اقلیتی برادری کے حوالے سے بات نہیں کی۔بلاول نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ اگر وہ یہ ساری باتیں میرے منہ پر کرتے تو میں انھیں جواب دے سکتا۔ کافی ایسی باتیں ٹویٹ میں کی گئیں جو ہماری گفتگو کا حصہ نہیں تھیں۔ اگر آگے جا کر دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو تفصیل میں ایسے موضوعات پر بات کریں گے۔بلاول نے مزید کہا کہ بریڈ شرمین انڈیا کے بہت نزدیک رہے ہیں حتی کہ وہ بھی انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ کے دوران یہ ٹویٹ کرتے رہے کہ انڈیا نے دہشتگردی کے اس واقعے میں وہ ثبوت پیش نہیں کیے جس کی وجہ سے اسے پاکستان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔بلاول بھٹو نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھ نہیں معلوم کے ششی تھرور نے بریڈ شرمین کی یہ والی ٹویٹ یا پیغام شیئر کیا یا نہیں۔بی بی سی کے اس سوال پر کہ انڈین وفد کی تو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے بھی ملاقات ہوئی، آپ کے وفد کی ٹرمپ انتظامیہ میں کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستانی وفد نے امریکہ میں جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، جہاں ملاقات کے لیے ہم نے خواہش کا اظہار کیا، یا جہاں سے ان کی طرف سے ملاقات کا کہا گیا تو ہم وہاں پہنچے۔تو آپ نے جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اس پر بلاول نے بتایا کہ ہمارا دور امریکہ کا پہلا فوکس اقوامِ متحدہ تھا، پھر ہم نے سمجھا کہ سینیٹ، کانگریس اور پارلیمنٹ ہیں کیونکہ وہاں پر بہت فیصلے ہوتے ہیں اور وہ بھی بہت اثرورسوخ رکھتے ہیں۔محکمہ خارجہ میں ملاقاتیں کیں، بہت سے تھنک ٹینک ہیں جو امریکہ کی پالیسی سازی میں کردار ادا کرتے ہیں، ہم نے وہاں پر دورے کیے لیکن میرے خیال میں ہمارے دورے کے لیے یہ ہی مناسب تھا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو چینی کمپنی ٹیمو سے تشبیہہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ان کی بات کم الفاظ میں سمجھ میں آ جائے۔جب بلاول سے پوچھا گیا کہ آپ کبھی مودی کو گجرات کا قصاب اور کبھی نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن کہتے ہیں اور ساتھ ہی جامع مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں، تو بلاول نے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر میرے بیانات نہ ہوتے تو مودی اس وقت میرے ساتھ بیٹھے ہوتے؟۔انھوں نے مزید کہا کہ ٹیمو بہت بڑی اور امیر چینی کمپنی ہے، جو مصنوعات وہ بناتے ہیں انھیں خود بھی پتا ہے کہ ان کی کوالٹی کمزور ہوتی ہے اور ان کی قیمت بھی انتہائی کم ہوتی ہے لیکن میں نے یہ بیان ایسے نہیں دیا۔مجھ سے ایک سوال کیا گیا تو میں نے یہ الفاظ ضرور استعمال کیے، آج کل ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، میرا ماننا ہے کہ بہت کم الفاظ میں آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں اور بہت کچھ لوگوں تک پہنچا بھی سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میرا وہ پیغام آپ کو جتنا بھی سخت لگ رہا ہو گا، اس لحاظ سے کافی کامیاب رہا۔
بلاول نے مزید کہا کہ مودی کو گجرات کے قصاب کا لقب انھوں نے یا کسی پاکستانی نے نہیں دیا بلکہ مودی کے اپنے عوام نے دیا۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مودی جی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ کیا وہ گجرات کے قصاب، کشمیر کے قصاب بننا چاہیں گے یا وہ امن قائم کر کے پاکستان اور انڈیا کے عوام کے مفاد میں، ایسا فیصلہ کرنا چاہیں گے جس کے بعد تاریخ انھیں اچھے انداز میں یاد رکھے گی۔سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر پاکستان کے تناظر میں آپ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تو کل کسی اور ملک میں یہ ہی کام ہو گا۔ ایک دن یہ انڈیا کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ انڈیا نے اس معاملے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ موقف اپنایا۔انھوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پاکستان میں ڈیم بنانے کی بات ہے تو جہاں اتفاق رائے ہوتا ہے وہاں ڈیم بن جاتے ہیں۔ جیسے دیامر بھاشا ڈیم ہے، وہ منظور بھی ہو گیا اور اس پر کام بھی جاری ہے۔اس وقت پاکستان اگر کوئی ایسا فیصلہ لیتا جیسے کہ مثال کے طور پر ہم 10 ڈیم بنا رہے ہیں، تو میرے خیال میں ہماری بین الاقوامی پوزیشن کو بہت بڑا دھچکاپہنچے گا۔ اس لیے اگر ہم آج سے انڈیا کا یہ موقف مانتے ہیں کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے نکل چکا اور اس موقف کو مانتے ہوئے اپنی تیاری کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم یہ جنگ ہار گئے۔ ہم نے محاذ ہی چھوڑ دیا، ہم پچ سے اٹھ کر چلے گئے۔اندرونی سیاست اپنی جگہ، ہر ڈیم کی آپ کو سیاسی، تکنیکی اور معاشی پہلو دیکھنا ہوتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے انڈیا نے بہت بڑا اعلان کر دیا ہے، آپ نے خود کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد ہو گا تو جنگ ہو گی، تو اگر انڈیا ہماری پانی کی سپلائی روکتا ہے تو اس صورت میں جنگ ہو گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے موقع پر ملک میں اتحاد کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان سے بات ہو لیکن عمران خان تو صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔