اسلام آباد:وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا، 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے بندکیے ہیں،، قومی سطح پر ریونیو میں اضافہ کرنا ہو گا،معاشی چیلنجز کے باعث قومی ترقیاتی بجٹ میں مسلسل کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے،ترقیاتی بجٹ کی رقم رواں سال کے مقابلے میں 100 ارب روپے کم ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے ا ہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں وفاقی وزیر خالد مقبول، مختلف وفاقی سیکریٹریز، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، صوبائی حکومتوں کے نمائندے، قومی و صوبائی اداروں کے سربراہان اور دیگر اعلی حکام شریک ہوئے۔اجلاس میں چیف اکانومسٹ ڈاکٹر امتیاز نے شرکا کو آئندہ سالانہ ترقیاتی منصوبہ، معاشی روڈ میپ اور ترجیحی اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی۔سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کیلئے اہم معاشی اہداف کی منظوری دے دی گئی۔ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر ایک ہزار ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے، صوبے 609 ارب روپے زیادہ خرچ کریں گے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کے لیے بیرون ملک سے 270 ارب قرض لے گی
اس کے علاوہ چاروں صوبے بھی 802 ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیں گے۔پنجاب حکومت ترقیاتی منصوبوں پر 1190 ارب خرچ کرے گی، اگلے سال سندھ حکومت نے 887 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام تیار کیا ہے، خیبرپختونخوا کی جانب سے 440 ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے جبکہ بلوچستان حکومت اگلے سال ترقیاتی منصوبوں پر 280 ارب خرچ کرے گی۔ذرائع کے مطابق آئندہ سال تعمیراتی شعبے کا گروتھ ریٹ 3.8 فیصدمقررکرنے کی تجویز ہے۔ شعبہ خدمات کی ترقی کا ہدف 4 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ قومی بچت کا 14.3 فیصد،سرمایہ کاری بہ لحاظ جی ڈی پی 14.7 فیصدہدف ہوگا۔ اگلے مالی سال کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 0.4 فیصد ہوگا جب کہ پبلک انویسٹمنٹ ہدف 3.2 اور نجی سرمایہ کاری کا ہدف 9.8 فیصد ہوگا۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمار ے آدھے اخراجات قرضوں کی ادائیگی میں جا رہے ہیں، موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے شی چیلنجز کے باعث قومی ترقیاتی بجٹ سکڑ رہا ہے، ہمیں گھمبیر صورتحال کا حل تلاش کرنا ہے۔ ترقیاتی فنڈز میں وسعت وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ عوام صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور انفراسٹرکچر میں بہتری کی توقع منتخب حکومتوں سے رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ قومی سطح پر ریونیو میں اضافہ کرنا ہو گا، پائیدار ترقی کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹیکس اکٹھا کرنیوالے ملک میں شامل ہے، حکومت ٹیکس چوروں کا پیچھا کر رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا رواں مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جس میں تمام وزارتوں کے منصوبے شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔ بلوچستان کو 250 ارب روپے دیے جائیں گے، ترقیاتی بجٹ کی رقم رواں سال کے مقابلے میں 100 ارب روپے کم ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی شرح نمو، عوامی مسائل کے حل اور معاشی اہداف کے حصول کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس چوری کی روک تھام اور ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ کے لیے قومی سطح پر مربوط مہم کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس ریونیو کی شرح کم ترین ہے۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ 118 سے زائد کم ترجیحی یا غیر فعال منصوبے بند کیے جا چکے ہیں جب کہ محدود فنڈز میں صرف اہم قومی منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پی ایس ڈی پی میں غیر ملکی فنڈنگ والے منصوبے بھی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ قومی نوعیت کے حامل اور پانی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ دیا میر بھاشا ڈیم، سکھرحیدرآباد موٹر وے، چمن روڈ، قراقرم ہائی وے (فیز ٹو) جیسے بڑے منصوبے قومی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی بروقت تکمیل پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
بھارت کی دھمکیوں کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی جلد تعمیر لازم ہوگئی ہے، قراقرم ہائی وے فیز ٹو کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے، این 25 کراچی کوئٹہ چمن شاہراہ کی تعمیر کی جائے گی، حیدر آباد سکھر موٹروے بھی ترجیحات میں شامل ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اڑان پاکستان پروگرام کے تحت تمام صوبوں میں ورکشاپس کا انعقاد کر کے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ وقت کے ساتھ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا، نہ کہ اسے مزید محدود کرنا۔انہوں نے کہا کہ 2018 میں نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں سوچتے تھے،آج جاری منصوبوں کو محدود کرنے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ قومی ترقی میں سب کو اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ اگر کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا تو پیشگی معذرت۔