بدھ, اپریل 30, 2025
ہومپاکستاندہشت گردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں،جسٹس جمال...

دہشت گردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں،جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد:سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشت گردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی، کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے،آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو، ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے، تفتیش کون کرتا ہے، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیے ہیں۔سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال پرمشتمل 7رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل جاری ہیں،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ کچھ عدالتی فیصلوں پر دلائل دینا چاہتا ہوں،وکیل خواجہ حارث نے سابق جج سعید الزماں صدیقی سمیت دیگر فیصلوں کا ذکر کیا۔وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے، ٹینک چوری کرے تواس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے،وکیل وزارت دفاع نے کہاکہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے ٹرائل کہاں ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو، ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے، تفتیش کون کرتا ہے، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں،وکیل وزارت دفاع نے کہاکہ آرمی ایکٹ کے تحت آرمڈ فورسز خود بھی سویلین کی گرفتاری کر سکتی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ مزیددلائل پیش کیے جسٹس حسن رضوری نے کہاکہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے، جسٹس جمال نے کہاکہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو، وکیل نے کہاکہ آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کیلئے یونیک اختیار سماعت دے رکھا ہے جسٹس جمال نے کہاکہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں پھر یہ بتا دیں، خواجہ حارث نے کہاکہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں،جسٹس جمال نے کہاکہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی، سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب الجواب جاری رکھیں گے۔

RELATED ARTICLES

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

سب سے زیادہ مقبول

حالیہ تبصرے