کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کے سربراہ اسد بلوچ نے بلوچستان اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے، طاقت کے استعمال سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ ریاست طاقت کے ذریعے بلوچوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن مسائل کا حل بات چیت میں ہے۔ ان کے مطابق، بلوچستان کے عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، اور ان کے مسائل کا دیرپا حل نکالنے کے لیے تمام فریقین کو مل بیٹھنا ہوگا۔سد بلوچ نے مزید کہا:بلوچستان 1947 میں نہیں، 1948 میں پاکستان کا حصہ بنا۔اپیکس کمیٹی آئینی ادارہ نہیں، اس کی حیثیت پر سوال اٹھایا جانا چاہیے۔
افغانستان میں نیٹو کی طاقت کا انجام سب کے سامنے ہے، طاقت کے استعمال سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔بلوچستان میں آپریشن سے نفرتیں بڑھیں گی، مسائل حل نہیں ہوں گے۔بلوچ عوام اپنے حق کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھاتے رہیں گے۔سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک جیسے منصوبے بلوچ عوام کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہے۔بلوچستان کے قدرتی وسائل سے مقامی عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔پورے بلوچستان میں سڑکیں بند ہیں، ترقیاتی منصوبے نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے گئے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو دس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔اسد بلوچ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، ان کے فنڈز روکے نہ جائیں، اور تمام معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ دیرپا امن قائم ہو سکے۔