اسلام آباد:وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے ملک میں آبادی کی تیزی سے بڑھتی شرح کو چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وسائل کی تقسیم کے لئے آبادی کو بطور معیار استعمال کرنے کے طریقہ کار کا جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔تفصیل کے مطا بق وفاقی وزیر حزانہ کی زیرصدارت پیر کو ایک اجلاس میں قومی صحت و آبادی پالیسی 2025-34 کی تیاری کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں وزارت خزانہ کے سینئر افسران کے علاوہ این ایچ پی پی کی تین رکنی ٹیم نے شرکت کی، جس کی قیادت آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر اور این ایچ پی پی ٹیم لیڈ ڈاکٹر ثمین صدیقی کر رہے تھے، جبکہ ہیلتھ سسٹمز اسپیشلسٹ ڈاکٹر طیب مسعود اور پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ و این ایچ پی پی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر نور الہدی شاہ بھی شریک تھے۔اجلاس میں این ایچ پی پی ٹیم نے پالیسی کی تیاری سے متعلق اپڈیٹ فراہم کی، جو آئندہ دہائی کے لیے ملک کی صحت اور آبادی سے متعلق حکمت عملیوں کی رہنمائی کرے گی۔ ٹیم نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی شواہد پر مبنی فیصلوں اور موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر مالیاتی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جا رہی ہے۔این ایچ پی پی ٹیم نے پالیسی کے وسیع تر اہداف پر روشنی ڈالی، جن میں موجودہ صحت کے ڈھانچے کی ازسرنو تنظیم، تیزی سے بڑھتی آبادی کے چیلنجز سے نمٹنا، صحت اور آبادی سے متعلق حکمت عملیوں کو یکجا کرنا، اور صحت کے شعبے کے لیے سرکاری مالی وسائل میں اضافے کے لیے سیاسی عزم کو بروئے کار لانا شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد ایک ایسا موثر اور فعال نظام تشکیل دینا ہے جو عوام، بالخصوص معاشرے کے پسماندہ طبقات کی ضروریات پوری کرے۔مزید برآں، ٹیم نے پالیسی کے اہداف کے حصول کے لیے مختلف تجاویز اور سفارشات بھی پیش کیں، جن میں صحت کے نظام کو مضبوط بنانا، وسائل کی بہتر تقسیم، اور ضروری صحت سہولیات کی یکساں دستیابی کو یقینی بنانا شامل ہے۔
وفاقی وزیر خزا نہ نے این ایچ پی پی ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں اپنی سفارشات باضابطہ طور پر وزارت خزانہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی تاکہ ان کا مزید جائزہ لیا جا سکے۔اپنے خطاب میں وفاقی وزیر نے موسمیاتی تبدیلی، تیزی سے بڑھتی آبادی، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چائلڈ اسٹنٹنگ اور لرننگ پاورٹی جیسے مسائل کو اہم چیلنجز قرار دیا۔ انہوں نے اس حوالے سے عالمی بینک کے ساتھ حالیہ 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (CPF) پر دستخط کا حوالہ دیا، جس کے تحت صحت، تعلیم، ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی جیسے کلیدی شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس موقع پر سینیٹر محمد اورنگزیب نے آبادی کی تیزی سے بڑھتی شرح کو ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسائل کی تقسیم کے لیے آبادی کو بطور معیار استعمال کرنے کے طریقہ کار کا جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ پالیسی کو بین الاقوامی بہترین طریقہ کار اور معیارات کے مطابق مرتب کیا جائے تاکہ وسائل کی منصفانہ اور مثر تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔اجلاس میں قومی صحت و آبادی پالیسی کی تیاری کے عمل کو مزید مستحکم بنانے اور پاکستان کو درپیش صحت و آبادی کے چیلنجز سے پائیدار اور موثر انداز میں نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دریں اثنا وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب اور ایفینیٹی، ایک نمایاں اے آئی ٹیکنالوجی فرم، کے وفد کے درمیان ملاقات ہوئی۔ وفد کی قیادت ایفینیٹی سافٹ ویئر سلوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے سی ای او مسٹر جیروم وان کیپلس کر رہے تھے، جبکہ وفد میں ایفینیٹی کے سی ایف او ویڈلی ہاورڈ فنک، ایم ڈی و جی ایم ایفینیٹی پاکستان عثمان اصغر خان، اور سینئر نائب صدر گلوبل ایچ آر فخر اعجاز شامل تھے۔
ملاقات میں پاکستان میں ایفینیٹی کی توسیعی کاروباری سرگرمیوں، ٹیلنٹ ہائرنگ، اور ٹیکس نظام سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسٹر جیروم وان کیپلس نے ایفینیٹی کی آپریشنل تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی کا تقریبا 80 فیصد آپریشنل سپورٹ عملہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں موجود ہے۔ انہوں نے کمپنی کی عالمی سطح پر توسیع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کے صارفین کا دائرہ اب شمالی امریکہ، یورپ اور دیگر خطوں تک پھیل چکا ہے۔مسٹر کیپلس نے پاکستان میں دستیاب ہنر مند افراد، بالخصوص انجینئرز، کمپیوٹر سائنسدانوں اور ٹیکنالوجسٹوں کی صلاحیتوں کو سراہا اور کہا کہ ایفینیٹی کو پاکستان میں اعلی معیار کی افرادی قوت دستیاب ہونے کا شاندار تجربہ رہا ہے، جس نے کمپنی کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے وفد کا خیرمقدم کیا اور ایفینیٹی کی ترقی اور پاکستان میں اس کی مسلسل سرمایہ کاری کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور آئی ٹی سے منسلک خدمات، زرعی شعبے کے ساتھ، پاکستان کے اہم ترقیاتی سیکٹرز میں شامل ہیں، جن کا منفرد فائدہ یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر وسائل مقامی سطح پر دستیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ حکومت آئی ٹی اور زراعت کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔وزیر خزانہ نے وفد کو ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بریفنگ دی، جن کا مقصد جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس نظام کو مثر بنانا ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ حکومت کا ہدف ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اور غیر رجسٹرڈ شعبوں کو بھی اس میں شامل کرنا ہے، تاکہ زیادہ ٹیکس کے بوجھ تلے دبے طبقات، جیسے تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ سیکٹر، کو ریلیف دیا جا سکے۔مزید برآں، وزیر خزانہ نے ٹیکس ریٹرن کے عمل کو آسان بنانے کی حکومتی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس ریٹرن فارم میں فیلڈز کی تعداد کم کر دی گئی ہے،
جس سے ٹیکس نیٹ میں زیادہ شمولیت متوقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نیا آسان ٹیکس ریٹرن نظام ستمبر میں نافذ کر دیا جائے گا، تاکہ آئندہ ٹیکس فائلنگ سیزن سے قبل اس کا نفاذ ممکن ہو سکے۔وزیر خزانہ نے ملاقات کے دوران پاکستان کرپٹو کونسل کے قیام کے بارے میں بھی آگاہ کیا، جو بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کو ملک کے مالیاتی نظام میں ضم کرنے کے لیے ایک نئی حکومتی پہل ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ اقدام پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل فنانس کے رجحانات کے مطابق رکھنے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرنے میں مدد دے گا۔ملاقات کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ حکومت ایفینیٹی جیسے کاروباری اداروں کی مکمل معاونت جاری رکھے گی اور عوامی و نجی شعبوں کے درمیان مستقل شراکت داری کے ذریعے پاکستان میں ترقی و خوشحالی کو فروغ دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں و فاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب اور وزارت خزانہ کی ٹیم کا عالمی بینک کی ٹیم کے ساتھ ایک اہم فالو اپ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کے قومی ترقی اور مالیاتی پروگرام پر تبادلہ خیال کیا گیا، جو 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (CPF) کا حصہ ہے۔ اس فریم ورک کے تحت عالمی بینک پاکستان میں صحت، تعلیم، ماحولیاتی استحکام اور پائیدار ترقی سمیت کلیدی شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم رکھتا ہے۔یہ اجلاس وزارت خزانہ میں منعقد ہوا، جس میں وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس کا بنیادی مقصد اقتصادی اصلاحات کے لیے عالمی بینک کی سرمایہ کاری فنانسنگ پر جاری تبادلہ خیال کو آگے بڑھانا تھا۔
اس موقع پر عالمی بینک کی ٹیم نے قومی ترقی اور مالیاتی پروگرام کی تیاری پر اپنی پیش رفت سے آگاہ کیا۔یہ پروگرام جامع اقتصادی اور مالیاتی اصلاحات کا احاطہ کرتا ہے، جس میں شمولیتی اور پائیدار ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، محصولات میں اضافہ، اخراجات کے معیار کو بہتر بنانے اور سروس ڈیلیوری میں شفافیت اور مثریت کو فروغ دینے کے لیے حکمت عملی شامل ہے۔ اصلاحات کا بنیادی مقصد نجی شعبے کی پیداواری سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول پیدا کرنا اور عوامی وسائل کو مساوی ترقیاتی اہداف کے لیے مختص کرنا ہے۔عالمی بینک کی ٹیم نے وزیر خزانہ کو پری بجٹ مشاورت کے دوران مختلف چیمبرز، تجارتی اداروں اور ایسوسی ایشنز سے حاصل کردہ پالیسی تجاویز اور سفارشات کے تجزیے پر بھی بریفنگ دی۔ یہ مشاورت حکومت کے بجٹ سازی کے عمل کو مضبوط اور حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے، جو اس سال جنوری میں شروع کیا گیا تھا تاکہ اقتصادی نقطہ نظر پر مبنی بہتر محصولات پالیسی تشکیل دی جا سکے۔وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مالیاتی، تجارتی اور نجی شعبے کی اصلاحات کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، جو وفاقی اور صوبائی سطح پر یکساں طور پر لاگو ہو۔ انہوں نے اس امر کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ ایسی اصلاحات مرتب کی جائیں جو انسانی ترقی اور سماجی و اقتصادی بہتری کے ساتھ کارکردگی پر مبنی اشاریوں سے منسلک ہوں۔وزیر خزانہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر مربوط حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے، جس کی نمایاں مثال نیشنل فسکل پیکٹ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ متحدہ حکمت عملی ملک میں شمولیتی اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا بنیادی ستون ہوگی، جو تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گی۔اجلاس کے اختتام پر وزارت خزانہ، عالمی بینک اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور پاکستان کی معیشت کے روشن مستقبل کے لیے مشترکہ کوششوں کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔